جسٹس فائز کیس: صدر مملکت ریفرنس بھجوانے کی ایڈوائس پر عمل کے پابند نہیں، عدالت عظمیٰ

اسلام آباد: عدالت عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں ریمارکس دیے کہ صدر مملکت ریفرنس بھجوانے کی ایڈوائس پر عمل کے پابند نہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس اور سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
مرکزی حکومت کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی سوالات سے مجھے بہت معاونت ملی، 27 قانونی نکات پر دلائل دوں گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ (اے آر یو) کے کردار اور قانونی سوال کیے ہیں، سوال ریفرنس کی مبینہ بدنیتی پر ہیں کہ شکایت صدر مملکت کو بھیجنے کے بجائے اے آر یو یونٹ کو پذیرائی کیوں دی۔
فروغ نسیم نے کہا کہ صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل کرتا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 209 عدلیہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہے، صدر مملکت ریفرنس بھجوانے کی ایڈوائس پر عمل کرنے کے پابند نہیں، وہ آرٹیکل 48 کے تحت ریفرنس نامکمل ہونے پر واپس بھیج سکتے ہیں۔
فروغ نسیم نے بتایا کہ بیرون ممالک سے اثاثے لانے کا معاملہ کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا، کابینہ نے غیر ملکی اثاثے واپس لانے کے لیے ٹاسک فورس بنائی جس کے نتیجے میں اے آر یو کا قیام عمل میں آیا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ 28 اگست کو شہزاد اکبر معاون خصوصی بنے، اسی روز ٹاسک فورس کے قواعد و ضوابط بھی بن گئے، ایک ہی تاریخ میں سارا کام کیسے ہوگیا؟ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ شہزاد اکبر کو اثاثہ جات کے معاملے پر مکمل عبور ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وزیراعظم کو معاون خصوصی لگانے کا اختیار ہے، شہزاد اکبر کو اے آر یو کا سربراہ کیسے لگادیا، اے آر یو کو قانون کا تحفظ نہیں، اس صورت میں اے آر یو کسی بندے کو چھیڑ نہیں سکتی، اے آر یو قانون کے تحت بنا ادارہ نہیں تو پھر کسی معاملے کی انکوائری کیسے کرسکتا ہے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ اے آر یو کابینہ ڈویژن کے ماتحت ہے، اس کے قیام میں کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوا، اس کا کام مختلف ایجنسیوں کے ساتھ کام کرنا ہے، اے آر یو نے جج کے خلاف 209 کی کارروائی کا نہیں کہا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اے آر یو کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کا فیصلہ کرسکتا، یہ کس کے دماغ میں بات آئی کہ یہ کیس جج کے مس کنڈکٹ کا بنتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پھر حکومت پاکستان کی جانب سے کس نے کہا کہ یہ معاملہ مس کنڈکٹ کا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں، اس معاملے کے نتائج بھی ہوں گے۔