اتنی بے حسی کیوں؟

سہیر عارف

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں اِن دنوں پوری دنیا ایک وبائی آفت میں مبتلا ہے اور پاکستان بھی اِس وبائی آفت سے دوچار ہے، جس کے پیشِ نظر کئی ممالک نے لاک ڈاؤن کا راستہ اختیار کیا ہے تانکہ لوگوں کی میل جول کم سے کم کی جا سکے اور یہ وائرس با آسانی ایک سے دوسرے میں منتقل نہ ہو۔ پاکستان نے بھی اس وائرس سے لوگوں کو بچانے کے لیئے یہی طریقہ اختیار کیا ہے.

لیکن جہاں احتیاط کی جارہی ہے وہیں دوسری جانب اِس کی وجہ سے لوگوں کی معاشی زندگی بُری طرح متاثر ہوئی ہے اور اِس کا سب سے زیادہ نقصان ہمارے غریب مزدور طبقے کو ہوا ہے۔ جہاں تک باقی ممالک کی بات ہے تو وہاں کی حکومت اپنی قوم کو پوری طرح مدد فراہم کر رہی ہے اور اُن کو گھر پر کھانے پینے کا سامان فراہم کر رہی ہے۔ پاکستان میں بھی حکومت کی طرف سے اعلان تو ہوا لیکن اُس طرح عمل نہیں ہورہا جس طرح ہونا چاہیئے! ہمارے ملک میں ویسے ہی آدھی سے زیادہ آبادی اُن لوگوں پر منحصر ہے جو روز کمانے اور روز کھانے والے ہیں، اُن کے پاس کوئی طے شدہ تنخواہ یا کوئی اور وسائل نہیں ہوتا۔ ہماری حکومت کا تو جو حال ہے وہ پاکستان آزاد ہونے کے بعد سے ہی بدستور ویسا ہی چلا آرہا ہے.

حکومت کے وعدے ہزار اور عَمل زیرو، دوسری طرف جو بدمعاش مافیا ہے وہ اِس چیز کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں کہ کب حالات بدتر ہوں اور ہم اُن حالات سے ناجائز منافع کمائیں، روزگار سب کے متاثر ہوۓ ہیں اور نقصان کا سامنا بھی  سب کو ہی ہے. میرا یہ سب کچھ لکھنے کا اصل مقصد اُس ایک  واقعے پر غور کروانا ہے، آج میں نے ایک خبر دیکھی کہ ہمارے ملک کے غریب لوگ بھوکے ہیں. لاک ڈاؤن کی وجہ سے فاقہ کی نوبت آگئی ہے اور بچے دودھ کی جگہ چینی والا پانی پی رہے ہیں. یہ دیکھ کر مجھے واقعی بہت افسوس ہوا لیکن اس خبر کے فوراً بعد ایک اور خبرنظر سے گزری کہ ہمارے ڈیری مالکان نے کئی لیٹر دودھ گٹر میں بہا دیا، جس پر مجھے شدید غُصّہ آیا کہ ایک طرف لوگ بھوکے مر رہے ہیں اور دوسری طرف رزق کو اِس طرح ضائع کیا جا رہا ہے. ہمارے لوگوں میں اتنا احساس نہیں ہے کہ ہم جو رزق ضائع کر رہے ہیں وہ کسی کی بھوک اور زندگی ہے.


اِس موقع پر میں مولانا الطاف حسین ہالی کا وہ شعر بیان کرنا چاہوں گا،
"فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ”