جسٹس فائز کیس: ایک جج پرسوال اٹھے تو پورے ادارے پرسوال اٹھتے ہیں، عدالت عظمیٰ

اسلام آباد: عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ تسلیم کرتے ہیں ایک جج پر سوال اٹھے تو پورے ادارے پر سوال اٹھتے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران حکومتی وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ آرٹیکل 63 کے تحت جائیدادیں ظاہر نہ کرنے والا رکن اسمبلی اپنی رکنیت سے محروم ہوجاتا ہے، جج بھی سروس آف پاکستان میں آتا ہے، آرٹیکل 209 میں اہلیہ کو زیر کفالت یا خود کفیل رکھنا بلاجواز ہے، کسی کا اپنے یا اہلیہ کے نام جائیداد ظاہر نہ کرنا قابل سزا جرم ہے، ہمارا مرکزی مقدمہ ہے کہ کن وسائل سے یہ جائیدادیں خریدی گئیں، آرٹیکل 116 کی خلاف ورزی ایک چھوٹا سا نکتہ ہے، آرٹیکل 116 کی خلاف ورزی ایک چھوٹا سا نکتہ ہے۔
دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کی دلیل یہ تھی کہ ہمارا مقدمہ شوکاز نوٹس جاری ہونے کا ہے، آپ کا نکتہ یہ تھا کہ مواد کونسل کے سامنے آنے کے بعد باقی چیزوں کی اہمیت نہیں رہی، جج کے مس کنڈکٹ کو کسی قانون کی خلاف ورزی تک محدود نہیں کرسکتے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ ہمارے ملک میں 1990 کے بعد ایسا میکنزم بنایا گیا جس کے تحت کوئی حساب نہیں، الزام یہ ہے کہ لندن کی جائیدادیں کیسے خریدی گئیں، آرٹیکل 10 اے پر بھی مطمئن کریں، صدارتی ریفرنس میں تشویش جائیداد خریدنے کے ذرائع پر ہے۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر ایف بی آر کہہ دے کہ اہلیہ نے جائیدادیں اپنے وسائل سے حاصل کی ہیں تو پھر صورت حال کیا ہوگی، کیا اس بات کا امکان ہے کہ ایف بی آر اہلیہ سے ذرائع پوچھ لے۔ فروغ نسیم نے جواب میں کہا، ایف بی آر پوچھے اور اہلیہ جواب دے دیں تو کیس ختم ہوجائے گا، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ پھر اس بات پر اصرار کیوں کررہے ہیں کہ جواب قاضی فائز عیسی ہی دیں۔
حکومتی وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ بھارت میں 6 لاکھ کی وضاحت نہ کرنے پر جج کو گھر بھیج دیا گیا، اسی مقدمے کی بنیاد پر بھارت میں عدالتی تاریخ رقم ہوئی۔ جس پر جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ بھارت میں جج کے خلاف کارروائی کے وقت مکمل مواد پیش کیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا جج صاحب ایف بی آر سے اپنی اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ لے سکتے ہیں، اگر ایف بی آر رازداری کی وجہ سے جج کو اہلیہ کا ریکارڈ نہیں دے گا تو جج انضباطی کارروائی کا سامنا کیسے کرے گا، اگر ایف بی آر شوہر کو اہلیہ کے گوشوارے یا ٹیکس معلومات دینے سے انکار کردے تو پھر راستہ کیا ہوگا۔
سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسی کی جانب سے ان کے وکیل منیر اے ملک نے حکومتی موقف پر اپنا جواب جمع کرایا، جس میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے حکومت کی جانب سے فیملی کی جائیدادوں کو مختلف ویب سائٹس کے ذریعے ڈھونڈنے کے موقف کی تردید کردی۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے تحریری جواب میں کہا کہ حکومت نے میرے اہل خانہ کی جاسوسی کرکے جائیدادوں کی معلومات حاصل کیں، شہزاد اکبر اور ضیا المصطفی نے عدالت کو اپنے پہلے موقف کے ذریعے گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے عدالت کو گمراہ کرنے پر معافی مانگنے کے بجائے 14 ماہ بعد ایک نیا موقف اپنالیا، فریقین کی جانب سے نیا موقف یکم جون اور 6 جون کو جمع کرائی گئی دستاویزات میں اپنایا۔ نئے موقف کے مطابق میرے اہل خانہ کی جائیدادیں مختلف ویب سائٹس کے ذریعے تلاش کی گئیں۔
فاضل جج نے اپنے جواب میں مزید کہا کہ عدالت میں ثابت کرچکا ہوں کہ درخواست گزار وحید ڈوگر کو میرے اہل خانہ کے درست نام تک نہیں معلوم اور درست نام کے اندراج کے بغیر جائیداد کی تلاش نہیں کی جاسکتی، جائیدادیں درحقیقت جاسوسی کے ذریعے ڈھونڈی گئیں۔ جائیدادوں اور ان کی ملکیت کی تلاش عام ویب سائٹس سے ممکن نہیں، اس کے لیے مالی ادائیگیوں سمیت مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر حکومت نے جائیدادوں کو سرچ انجن کے ذریعے تلاش کیا ہے تو اس کے دستاویزی شواہد فراہم کیے جائیں، حکومت سرچ انجن کو ادائیگی کی تفصیلات فراہم کرے۔