نوجوان کسی بھی ملک و قوم کا ایک عظیم سرمایہ ہیں کیونکہ انہوں نے ہی آگے چل کر ملک کو چلانا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس حوالے سے ایک ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا نظام تشکیل دے جس کی بدولت تمام اداروں کو مستقبل میں نہ صرف چلانے بلکہ انھیں بہتر سے بہتر بنانے والے لوگ سامنے آ سکیں۔ اسی لیے کہا جا تا ہے کہ نوجوان ہی دراصل کسی قوم کے مسقبل کا تعین کرتے ہیں۔
کیا پاکستان کا تعلیمی نظام اس طرح مربوط کیا گیا ہے کہ یہ آنے والی نسل کو مستقبل کے لیے تیار کر سکے تو اس کا جواب ہے نہیں۔ اور جب تک نوجوانوں کے پوٹینشل کا مفید استعمال نہیں کیا جاتا۔ آئندہ بہتر نتائج آنے کی بھی امید نہیں کی جا سکتی۔
پاکستان کی تقریبا 64 فیصد آبادی کی عمر تیس سال سے کم ہے جبکہ 41 فیصد آبادی کی عمر پندرہ سے تیس سال کے درمیان ہے۔ ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے نام پر چیزوں کا رنگ، نام یا انداز بیان تبدیل کردیا جاتا ہے۔ اگر بدلتے رجحان کو دیکھنا ہو تو وہ ٹک ٹاک پر ہمارے نوجوانوں کی تعداد سے واضح ہے یا پھر یوٹیوب پر چینلز کی نوعیت کا جنھوں نے لوگوں کو ہنسانے کا ٹھیکا لیا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کے اندر آرٹ، لٹریچر، وغیرہ کو پروموٹ کرنے کے لیے جس قدر اور جس طرح کی کوششں کی جارہی ہیں وہ سب جانتے ہیں۔
اصل میں نوجوانوں کی تربیت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اور جن مسائل کا ہمیں آج سامنا ہے اس کی بنیادی وجہ پاکستان کی سیاسی صورتحال ہے جہاں ہر نئی حکومت ملک کے مستقبل کی بجائے اپنے مستقبل کے بارے میں زیادہ پریشان رہتی ہے۔ اور ہر سال قابل لوگ مایوس ہو کر باہر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جن کی تعداد ایک کروڑ تک پہنچنی والی ہے۔ لہذا مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ہماری کوششیں سیاسی ہونی چاہیے اور اپنے تئیں حالات بہتر بنانے کے لیے مثبت سوچ کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہنے چاہیے۔