دنیا کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو میرا سلام، ہر سال 8 مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے، مگر افسوس کہ اب یہ دن خواتین کے حقوق مانگنے یا خواتین کی مظلومیت پر بات کرنے کے بجائے خواتین پر طنز اور تنقید کا دن بنتا جارہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ شاید عورت مارچ کے مختلف انداز بھی ہیں جب کہ اگر دیکھا جائے تو عورت کو خودمختار بنانے کی بات دُور حاضر کی ضرورت بھی ہے اور اہمیت کی حامل بھی ہے مگر ہم نے اکثر ماہ مارچ آتے ہی سوشل میڈیا پر اکثر خواتین کے خلاف منفی باتوں کو گردش کرتے دیکھا ہے۔ مرد حضرات پہلے سے مختلف طنزیہ اور نفرت آمیز اسٹیٹس لگانا شروع کردیتے ہیں، یہ امر نہایت افسوس ناک ہے۔ عورت ذات ہر دور میں مظلوم تھی اور مظلوم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو صنف نازک بنا کر بھیجا مگر اس کے ساتھ ہی ماں بناکر ناصرف جنت قدموں تلے رکھی بلکہ یہ تک بتادیا کہ اس کی طاقت کا مقابلہ کسی سے نہیں کیونکہ ماں بننے کا درد جسم کی تمام ہڈیاں ٹوٹ کر دوبارہ جڑنے کا درد ہوتا ہے، جو ایک مرد ہرگز نہیں سہہ سکتا۔ ایک عورت جو 9 ماہ اپنی کوکھ میں ایک بچہ پالتی ہے، اس کا کھانا پینا ہر چیز اس کوکھ میں پلنے والے بچے کے نام ہوجاتی ہے، حمل کے اس پورے عرصے میں ایک عورت ناصرف ایک چھوٹی سی جان کا وزن اپنے ساتھ اپنے اندر لے کر گھومتی ہے، بلکہ وہ اپنے جسم اور چہرے کے بدلتے ہوئے خدوخال تک کی پروا نہیں کرتی۔ عورت کی مامتا کا تو یہ حال ہے کہ وہ اپنی اولاد کو دنیا میں صحیح سلامت لانے کے لیے ہر طرح کا درد اور تکلیف سہتی ہے۔ عورت جب کسی کے گھر بیٹی بن کر پیدا ہوتی ہے تو گھر کی رحمت کہلاتی ہے اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین کا سلام بھی بن کر آتی ہے۔بیٹیاں گھروں کی رونق ہوتی ہیں اور اکثر اپنے والدین میں باپ کی بے حد لاڈلی ہوتی ہیں مگر افسوس یہ ہر گھر کی کہانی نہیں ہے۔
ہمارے ہی معاشرے میں مختلف پس ماندہ علاقوں میں بیٹیوں کے ساتھ آج بھی برا سلوک اور ظالمانہ رویہ اپنایا جاتا ہے۔ کئی گھرانوں میں بیٹی کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دیا جاتا ہے تو کئی جگہ بیٹی پیدا کرنے کو جرم قرار دے کر عورت کو طلاق دے دی جاتی ہے۔ بچپن سے ہی گھر میں سالن کی بوٹیاں بیٹے کے لیے رکھی جاتی ہیں جب کہ بیٹی کو بھائی کے لیے قربانی کا کہا جاتا ہے۔ بیٹیوں کو بچپن سے ہی قربانی کے لیے تیار کیا جاتا ہے کہ آگے چل کر وہ ہر قدم پر خود کو قربان کرنے کے لیے تیار رہیں۔ رخصتی کے وقت یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اب شوہر کے گھر سے جنازہ ہی واپس آئے جب کہ یہ سراسر ظلم اور ناانصافی ہے اور اس ستم کی وجہ سے ہر لڑکی خود پر ہونے والا ہر ظلم سہتی ہے اور اپنا گھر بچانے اور شادی قائم رکھنے کی کوشش میں یا تو ایک دن چولہے کے سامنے جلاکر مار دی جاتی ہے یا پھر اس کے ساتھ کوئی بھی ظلم حادثہ بناکر کردیا جاتا ہے، کیا بیٹیوں کے جنازے آنا ضروری ہیں؟ اگر بیٹیاں اپنے گھروں میں خوش نہیں تو وہ زندہ بھی تو اس دوزخ سے نکل سکتی ہیں۔ کیوں بیٹیوں کو تعلیم دیے، خودمختار بنائے بغیر شادی کی جلدی پڑجاتی ہے۔ بیٹیوں کے پاس اگر تعلیم یا ہُنر ہوگا تو وہ کسی کی محتاج نہیں ہوں گی۔
عورت کو بہن کے روپ میں تو ہم نے تحریک آزادی پاکستان میں مادر ملت فاطمہ جناح کی صورت بھی دیکھا کہ کیسے محترمہ فاطمہ جناح نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے شانہ نشانہ کھڑے رہ کر پاکستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کی۔عورت واقعی بہن کے روپ میں بھی محبت کی اعلیٰ مثال ہے اور جب کسی گھر میں مرد کی شریک حیات بن کر آجائے تو اپنی وفا نچھاور کرنے کی اعلیٰ مثال رکھتی ہے، مگر معاشرے کی بڑھتی ہوئی بے راہ روی اور مغربی طرز زندگی نے ہر عورت کے گھر کا سکون چھین لیا ہے۔ آج کل کے مردوں کو عورت باکردار یا پاک دامن نہیں بلکہ ایک بازارو عورت کی طرح سکون دینے والی چاہیے ہوتی ہے اور اکثر اسی چاہ میں مرد گھر میں بیوی ہونے کے باوجود دوسری اور تیسری عورت کے چکر میں پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ عورت گناہ گار نہ ہونے کے باوجود بھی اکثر مرد سے پٹتی ہے، اس کے جوتے چپلیں کھاتی ہے اور جب چہرے پر زخم اور جسم کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے تب بھی سیڑھیوں سے گرنے کا بہانہ کرکے اپنے آدمی کو بچالیتی ہے۔
پہلے کبھی یہ کہا جاتا تھا کہ گاؤں گوٹھ میں عورتوں کو جلادیا جاتا ہے، تیزاب ڈال دیا جاتا ہے مگر اب کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں بھی بے پناہ گھریلو تشدد کے واقعات ہونے لگے ہیں۔ شادی شدہ عورتیں اکثر اپنے بچوں کی محبت میں ہر تکلیف سہتی رہتی ہیں۔ خواتین کو جب ہم خودمختار بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو کیا ہم خواتین کے لیے ایسے توانا ماحول کی کوشش کرتے ہیں جہاں ایک عورت کو نوکری یا کام کے لیے ہراساں نہ کیا جائے۔ ایک عورت پوری نسل چلاتی ہے، اس کی تعلیم و تربیت اور اس میں یقین پیدا کرنا صرف سماجی اداروں کا کام نہیں بلکہ اب اس کو حکومتی سطح پر بڑھانے کی ضرورت ہے اور معاشرے سے ایسے گِدھوں کے خاتمے کی ضرورت ہے جو عورت کو اپنے پاؤں کی جوتی جیسے لقب دیتے ہیں۔
میں خواتین پر ہونے والے جنسی اور ذہنی تشدد کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے اپیل کرتی ہوں کہ خواتین کے لیے تعلیم اور روزگار کے بہتر مواقع فراہم کیے جائیں اور خواتین پر تشدد اور ہراساں کرنے والے مجرموں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ کم عمری کی شادی کے لیے بھی کوئی بہتر قانون بنایا جائے اور بنت حوا کو صرف تقاریر اور تقاریب کی حد تک خراج تحسین پیش نہ کیا جائے بلکہ ہر عورت کے تقدس کا خیال اس کے سامنے بھی رکھا جائے اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے بھرپور اقدامات کیے جائیں۔ بے شک ایک بااختیار عورت مضبوط معاشرے کی ضمانت ہے۔ میری جانب سے ایک بار پھر خواتین کا عالمی دن تمام خواتین کو بہت مبارک ہو۔ خواہ وہ گھریلو عورت ہے یا پھر کسی بھی شعبے سے وابستہ ہے، کیونکہ عورت چاہے گھر کا کام کرے یا باہر کا، اس نے اپنے بچے بھی دیکھنے ہیں اور کھانا بنانے کے ساتھ شوہر کا بھی خیال رکھنا ہے۔ لہٰذا عورت کی زندگی میں توازن پیدا کریں اور اس کو مشین سمجھنے کے بجائے اس کے لیے آسانی پیدا کریں، تاکہ وہ بہتر اور اچھے ماحول میں اپنی صلاحتیوں کا اچھا استعمال کرسکے۔