انیس سو ستر کی دہائی میں ہمارے شہر باندھی کے ریلوے اسٹیشن پر زیادہ نہیں تو پانچ چھہ ریل گاڑیاں ضرور رکا کرتی تھیں۔ صبح دو پہر شام بڑے شہروں کی طرف جانے کے لئے کوئی نہ کوئی ریل گاڑی ضرور مل جاتی تھی۔
اس زمانے میں سب سے تیز دوڑنے والی برق رفتاری گاڑی کا نام” ریل کار“ ہوا کرتا تھا۔ وہ جب ریلوے اسٹیشن سے گزرتی تھی تو مٹی اڑاتی ہوئی گذر جاتی تھی اور منٹوں میں غائب ہوجاتی تھی۔ ایک زمانے میں تو ہمارے ایک بزرگ غلام رسول عرف بابل جمالی نے ریل کار کے ساتھ ساتھ اپنا گھوڑا دوڑاتے ہوئے ریس لگائی اور ریل کار سے آگے نکل گیا۔ مرحوم بابل خان اعلیٰ نسل کے گھوڑے پالتا تھا اور گھڑسواری کا بہت شوقین تھا۔ سندھ اور بلوچستان میں لگنے والے میلوں میں ہونے والے مقابلوں میں حصہ لے کر مقابلے جیتا کرتے تھے۔ ریل کار تو غریبوں کے لئے نہیں تھی اور نہ وہ باندھی جیسے چھوٹے اسٹیشنوں پر رکتی تھی لیکن مجھے وہ وہ کالے انجن والی چھُک چھُک کرتی ہوئی ریل گاڑی آج بھی یاد ہے جو صبح سویرے باندھی اسٹیشن پر آکر رکتی تھی۔ شہر کے چھوٹے چھوٹے دکاندار، بیکری والے، یا پھر خریداری کرنے والے شہری اسی قدیمی ریل گاڑی میں سوار ہوکر نواب شاہ تک جایا کرتے تھے اور شام کو لوٹتے تھے۔ یہ گاڑی ہمارے اسٹیشن پر تین چار منٹ رکتی تھی اور جونہی سیٹی بجتی تھی آہستہ آہستہ چھُک چھُک کرکے چلنا شروع کرتی تھی۔ ہم نے سیٹی کی کرامت سب سے پہلے ریل گاڑی چلنے کی صورت میں دیکھی جب ہائی اسکول میں پڑھتے تھے۔ سیٹی بجانے والے کو عام لوگ “ بابُو“ کہتے تھے۔ اسی زمانے میں سندھی زبان کا ایک لوک گیت ریڈیو پاکستان پر بڑا مشہور ہوا تھا۔ سیٹی بابو بھرے وجائج ( سیٹی بابو بھری آواز سے بجاؤ) پرائمری کی کتاب کی وہ نظم بھی ہمیں تب سمجھ میں آئی تھی جس میں پڑھایا گیا تھا کہ جب سیٹی لگتی ہے تو گاڑی چلتی ہے۔
اسٹیل کی بنی سیٹی کی آواز اتنی زوردار ہوا کرتی تھی کہ دو کلومیٹر تک تو سنائی دیتی تھی۔ پھر جب تھوڑے بڑے ہوئے تو شاہراہوں پر سفید وردی میں کھڑے ٹریفک والوں کی سیٹی سمجھ میں آنے لگی۔ گاڑیوں کو چلانے اور رکوانے کے لئے یہاں بھی سیٹی کو استعمال ہوتے دیکھا۔ پرانے زمانے میں ٹرام اور بسوں کے کنڈیکٹرز بھی سیٹی بجا کر گاڑی کو چلنے کا اشارہ کرتے تھے اب تو جہاں بھی سیکیورٹی کا کوئی کام ہوتا ہے وہاں سیٹی ضرور بجتی ہے۔ ایک عام سیکیورٹی گارڈ بھی سیٹی بجا بجا کر لوگوں کو متوجہ کرتا ہے۔ گذشتہ روز اعلی ایوانوں میں جب سیٹیاں بجتے دیکھیں تو مجھے بچپن کے بابو یاد آنے لگے۔ وہ تو صرف ایک بابو تھا لیکن یہاں پر دیکھا کہ ایوان بابوؤں سے بھرے پڑے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں حکومت اور حزب اختلاف کے ارکان کو سیٹیاں بجاتے دیکھ کر مجھے لگا کہ ہم ابھی تک چھُک چھُک کرنے والی ریل گاڑی کے لئے اسٹیشن پر کھڑے ہیں اور آخری سیٹی بجنے کے منتظر ہیں۔ نا جانے کس کس کی ریل گاڑی چل پڑے گی نا جانے کیوں ان ایوانوں میں سیٹیاں بج رہی ہیں جہاں پر قانون بنتے ہیں۔ انگریز سرکار ہمارے بابوؤں کو جو سیٹی تھما کر چلے گئے ہم آج بھی وہی سیٹی بجا رہے ہیں۔ ہم تو چوہتر برسوں میں سیٹی بجانے کا بھی کوئی اپنا قانون نہیں بنا سکے۔ بس فرق صرف اتنا ساہے ریل کے بابو اسٹیل کی سیٹی بجاتے تھے۔ ایوانوں میں پلاسٹک کی سیٹیاں بج رہی ہیں۔ ایوانوں میں بجنے والی سیٹیوں سے عوام کی زندگی کی گاڑی غربت اور مہنگائی کی آخری اسٹیشن پر رُک چکی ہے اور یہ گاڑی اب چلنے کا نام نہیں لے رہی۔