تحریر: ڈاکٹر عمیر ہارون
جاوید جبار، جو پاکستان کے ممتاز دانشور، محقق، مصنف اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات ہیں، نے حالیہ دنوں میں ایک بین الاقوامی علمی فورم پر نہایت جرأت مندانہ اور بصیرت افروز خطاب میں پاکستان کے قیام پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کا نہ صرف شاندار جواب دیا، بلکہ تاریخ کو اس کے اصل تناظر میں رکھ کر ایک ایسی فکری سمت مہیا کی، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے گم شدہ تھی۔ انہوں نے فرمایا:
"1947 میں محض تقسیم نہیں ہوئی بلکہ دو نئی ریاستیں وجود میں آئیں۔ ہندوستان اس سے پہلے کوئی متحدہ ریاست نہیں تھا، بلکہ یہ ایک جغرافیائی خطہ تھا جو مختلف تہذیبوں، اقوام، زبانوں اور سلطنتوں پر مشتمل رہا ہے۔ اسے ایک ریاست کے طور پر پیش کرنا تاریخی حقائق سے انحراف ہے۔”
جاوید جبار کا یہ جملہ محض ایک بیان نہیں بلکہ برصغیر کی ہزار سالہ تاریخ کی گہرائیوں سے جڑا ایک فکری اعلان ہے۔ ان کا مؤقف حقیقتاً چوہدری رحمت علی جیسے بزرگ مفکر کی فکر کا تسلسل ہے، جنہوں نے پہلی بار "پاکستان” کا نام تجویز کرکے برصغیر کے مسلمانوں کی علیحدہ قومی حیثیت کو اجاگر کیا۔ چوہدری رحمت علی کا نکتہ یہ تھا کہ مسلمان نہ صرف ایک علیحدہ مذہبی شناخت رکھتے ہیں، بلکہ ان کی تہذیب، تاریخ، ثقافت، اقدار، قوانین اور سیاسی نصب العین بھی اکثریتی ہندو معاشرے سے بالکل مختلف ہیں۔
جاوید جبار کی یہ بات بالکل درست ہے کہ ہندوستان کبھی بھی ایک قوم یا ایک ریاست نہیں رہا۔ یہ رومن ایمپائر کی طرح مختلف اقوام، تہذیبوں، مذاہب اور نسلوں پر مشتمل ایک وسیع براعظم نما خطہ تھا۔ کبھی موریہ سلطنت، کبھی گپتا خاندان، پھر اشوک اعظم کی حکومت، بعدازاں مسلمان سلطنتیں—غزنوی، غلام، خلجی، تغلق، مغل—ان سب نے اس خطے کو مختلف ادوار میں طاقت اور علم سے جوڑا، لیکن یہ وحدت کبھی بھی نسلی یا قومی بنیاد پر نہ تھی، بلکہ محض طاقتور سلطنتوں کے زیرِ سایہ ایک سیاسی بندوبست تھا۔
پھر 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد برطانوی سامراج نے اس خطے کو نوآبادیاتی نظام میں بدل دیا۔ انگریزوں نے جدید سیاسی اور قانونی ڈھانچے تو بنائے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس خطے کے مختلف مذاہب، قوموں اور زبانوں میں تقسیم کو بھی گہرا کیا۔ انگریز حکومت کے دور میں ہی مسلمان قوم نے اپنے سیاسی مستقبل کو ہندو اکثریت سے الگ دیکھنا شروع کیا، جو بالآخر تحریکِ پاکستان کی صورت اختیار کر گیا۔
جاوید جبار نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ پاکستان کا قیام محض کسی "تقسیم” کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ ایک واضح عوامی، جمہوری اور آئینی مطالبے کی تکمیل تھی۔ 1940 کی قراردادِ لاہور، جو بعد میں قراردادِ پاکستان کہلائی، اس امر کا اعلان تھی کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور انہیں اپنے سیاسی، ثقافتی اور مذہبی تشخص کے تحفظ کے لیے علیحدہ ریاست چاہیے۔
جب برطانیہ نے برصغیر چھوڑا، تو اس نے دو الگ ریاستیں تشکیل دیں:
1. پاکستان— جو مسلم اکثریتی علاقوں کی عوامی خواہش اور مطالبے پر قائم ہوئی، اور
2. بھارت— جو ایک مصنوعی سیاسی بندوبست کے تحت مختلف اقلیتوں، قومیتوں اور ثقافتوں کو زبردستی ایک وفاق میں جوڑ کر تشکیل دی گئی، جس کے اندر آج بھی درجنوں آزادی کی تحریکیں جاری ہیں۔
جاوید جبار نے جاوید اختر جیسے ناقدین کے اعتراضات کا علمی انداز میں جواب دیتے ہوئے بتایا کہ بھارت کے اندر جس ہندوتوا فاشزم کی جڑیں آج گہری ہوچکی ہیں، ان کا آغاز مہاتما گاندھی کے دور سے ہوچکا تھا، جب مذہبی علامات، رسوم اور ہندو فلسفے کو "قوم پرستی” کا حصہ بنادیا گیا تھا۔ "وندے ماترم” جیسے گیت کو قومی ترانے کا درجہ دینا، بابری مسجد کا انہدام اور مسلمانوں کے خلاف منظم پُرتشدد تحریکیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت کا سیکولرازم محض ایک نقاب تھا، جو آج اتر چکا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں ریاست نے کبھی بھی مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی پالیسی نہیں اپنائی۔ یہاں ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر اقلیتوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ مذہبی انتہاپسندی کو یہاں کبھی بھی ریاستی سرپرستی حاصل نہیں رہی اور نہ ہی انتہا پسند جماعتیں کبھی ملک گیر سطح پر عوامی حمایت حاصل کر پائیں۔
جاوید جبار کی گفتگو اس لحاظ سے منفرد اور اہم ہے کہ انہوں نے پاکستان کے وجود کو محض دفاعی انداز میں بیان نہیں کیا، بلکہ جارحانہ فکری بنیادوں پر سوال کو پلٹ کر بھارت کے وجود کی فکری حیثیت پر سوال اٹھایا۔ یہ نکتہ دہائیوں بعد کسی سنجیدہ دانشور نے علمی بنیادوں پر اٹھایا ہے، اور یہ چوہدری رحمت علی کی فکری وراثت کا احیاء ہے۔
افسوس کہ ہم نے نہ صرف چوہدری رحمت علی جیسے مفکر کو تاریخ سے خارج کردیا، بلکہ جاوید جبار جیسے عظیم مفکر کی آواز کو بھی وہ اہمیت نہیں دی جو دی جانی چاہیے۔ ہمارے تعلیمی نصاب، ذرائع ابلاغ اور قومی بیانیے میں وہ فکری گہرائی ناپید ہوچکی ہے جس کی ضرورت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
جاوید جبار کی گفتگو ہمیں دعوتِ فکر دیتی ہے کہ ہم تاریخ کو صرف جذباتی بیانیے کے طور پر نہیں، بلکہ ایک فکری، سیاسی اور تہذیبی مظہر کے طور پر دیکھیں۔ پاکستان کا قیام کسی حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک طویل فکری و عوامی جدوجہد کا حاصل ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنے اصل نظریاتی بیانیے کی طرف لوٹیں، چوہدری رحمت علی، علامہ اقبال، قائداعظم اور جاوید جبار جیسے مفکرین کی فکر کو نئی نسل تک پہنچائیں اور پاکستان کی فکری و نظریاتی اساس کو مزید مضبوط کریں۔