اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سماعت کرنے والے دو رکنی بینچ کو صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق دائر درخواست پر سماعت اور عمل درآمد سے روک دیا۔
قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے از خود نوٹس لینے کے اختیار کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل، صدر سپریم کورٹ بار اور وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے معاونت کیلئے طلب کرلیا۔ کیس پر آئندہ سماعت 25 اگست کو ہوگی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے جمعہ کے روز پریس ایسو سی ایشن آف سپریم کورٹ کی جانب سے ملک بھر میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف دائر آئینی د رخواست کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری اطلاعات و نشریات ، سیکرٹری وزارت انسانی حقوق ،ڈی جی ایف آئی اے اور آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کیے گئے تھے اور آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا تھا
سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کے معاملے پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی جانب سے لیے گئے از خود نوٹس پر عمل درآمد کو روک دیا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ کیا از خود نوٹس چیف جسٹس کے علاوہ بھی کوئی جج لے سکتا ہے، معاملہ دیکھیں گے۔ چیف جسٹس کے علاوہ بینچ کی از خود نوٹس کیلئے معاملہ تجویز کرنے کی روایت موجود ہے۔
عدالت نے کہا کہ از خود نوٹس لینے کے اختیار کے تعین کیلئے اصل شراکت داروں کو سننا چاہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل، صدر سپریم کورٹ بار اور وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل معاملے پر معاونت کریں ۔
عدالت نے کہا کہ 20 اگست کو 2 رکنی بینچ نے ایک حکمنامہ جاری کیا۔ حکمنامہ جس درخواست پر دیا گیا وہ معاملہ زیر سماعت ہی نہیں تھا۔ حکمنامے میں مقدمہ 26 اگست کو اسی بینچ کے سامنے لگانے کا کہا گیا۔ 26اگست کو جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس جمال مندوخیل کا بینچ دستیاب نہیں۔
عدالت نے کہا کہ سوال یہ ہے کیا اس معاملے کیلئے خصوصی بینچ تشکیل دیا جائے۔ 20 اگست کے حکمنامے کی ہدایات برقرار رہیں گے۔ فریقین صحافیوں کی ہراسگی سے متعلق جوابات جمع کروائیں۔ فی الوقت صحافیوں کی جانب سے اٹھائے گئے، اہم سوالات کو نہیں دیکھیں گے۔
عدالت نے کہا کہ اصل سوال از خود نوٹس لینے کے دائرہ اختیار سے متعلق ہے۔ نئے بینچ کی تشکیل تک صحافیوں کی ہراسگی کا معاملہ غیر موثر رہے گا۔ عدالت میں لکھوائے گئے تحریری حکمنامے کو حتمی نہ سمجھا جائے۔ حتمی تحریری حکمنامہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ماضی میں بھی کچھ مقدمات پر معمول سے ہٹ کر ازخود نوٹس ہوئے۔ رجسٹرار آفس نے قائم مقام چیف جسٹس کو معاملے سے تحریری طور پر آگاہ کیا تھا۔ رجسٹرار آفس نے کہا جو انداز اختیار ہوا وہ عدالتی طریقہ کار کے مطابق نہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ صحافیوں کا کیس حساس ہے، خوشی ہوئی انہوں نے رجوع کیا۔ عدالت میں کیس دائر ہونے اور مقرر کرنے کا باقاعدہ طریقہ کار ہے۔
صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی نے کہا کہ تاثر ہے کہ عدلیہ میں تقسیم ہے۔ اس پر قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ میں کوئی تقسیم نہیں۔ججز کی مختلف نکات پر رائے مختلف ضرور ہوتی ہے۔ آپکی آنکھوں کی ٹھنڈک کیلئے ہم ایک ساتھ بیٹھ جائیں گے