آج برصغیر کے عظیم اسلامی اسکالر اور مذہبی و سیاسی رہنما سید عطا اللہ شاہ بخاری کی برسی ہے۔ آپ کی شخصیت ہمہ جہت خوبیوں سے مرصع تھی۔ آپ کے خطابت میں بلا کی اثرپذیری تھی، جب آپ تقریر کرتے تو لوگوں کی بڑی تعداد اس کے سحر میں گرفتار ہوجاتی۔ آپ مجلس احرار اسلام کے بانی تھے۔ آپ کی سوانح عمری لکھنے والے آغا شورش کاشمیری کے مطابق برصغیر کے مسلمانوں میں انگریز مخالف جذبات اُبھارنے میں آپ کی تقریروں کا بڑا کردار تھا۔
آپ 1892 کو پٹنہ (برطانوی ہند) میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی دینی تعلیم گجرات (موجودہ پاکستان) سے حاصل کی۔ 1914 میں آپ امرتسر منتقل ہوگئے۔ آپ نے اپنے کیریئر کا آغاز امرتسر کی ایک چھوٹی سی مسجد سے بہ حیثیت مبلغ کیا۔ آپ نے صحیح بخاری کی تعلیم جیل میں اُس وقت حاصل کی، جب آپ حکومت مخالف مذہبی تقریر کرنے پر پابندِ سلاسل کیے گئے۔ آپ نے اپنے مذہبی اور سیاسی کیریئر کی شروعات 1916 میں کی۔ 1921 میں آپ نے انڈین نیشنل کانگریس کی سرگرمیوں میں حصّہ لینا شروع کیا۔ 27 مارچ کو اُس وقت کی انگریز حکومت مخالف تقریر پر گرفتار کیے گئ۔ نہرو رپورٹ کے بعد آپ نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کرلی اور 29 دسمبر 1929 کو مظہر علی اظہر،چوہدری افضل حق و دیگر کے ساتھ آل انڈیا مجلس احرار اسلام کی بنیاد ڈالی اور بخاری صاحب اس کے پہلے صدر بنے۔
اس جماعت نے فتنہئ قادیانیت کے خلاف بھرپور تحریک چلائی۔ 1953 میں آپ تحریکِ ختم نبوت کے مرکزی رہنما تھے۔ آپ نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے۔ آپ شاعری بھی کرتے تھے، آپ کا زیادہ تر کلام فارسی میں ہے۔ 1956 میں ”سواطح الہام“ کے نام سے آپ کا شعری مجموعہ شائع ہوا۔21 اگست 1961 کو آپ کا انتقال ہوا، ملتان میں آپ کی تدفین ہوئی۔