خود کشی (قسط نمبر 2)

خود کشی کرنے والے شخص کی آخری سوچوں پر مبنی قسط وار تحریر
ابرام گرگ

اب رسی پنکھے سے لٹک رہی تھی، مجھے کوئی جلدی نہیں تھی، پھر بھی خود کشی میرے لئے ایک بالکل مختلف نوعیت کا تجربہ تھا، کیونکہ میں جانتا تھا یہ دنیا میں میری سیکھنے کی آخری چیز ہے، اسے مجھے ہر پہلو سے خوب غور سے دیکھنا ہوگا۔

بقول مولوی صاحب کے کہ خود کشی حرام ہے۔ ظاہر ہے، اس کے بعد جنت کا تو سوال ہی نہیں بنتا۔ بقول مولوی صاحب کے کہ جہنم میں کوئی موت نہیں آنی ہے، سو اس کے پیش نظر مجھے موت سے بہت کچھ سیکھنا تھا کہ میں ہمیشہ یہی سمجھتا تھا کہ بندہ جب مرتا ہے یا مرنے کے قریب ہوتا ہے تو اسے موت سے بہت ڈر لگ رہا ہوتا ہے، لیکن میں موت سے جنتا قریب ہوتا جاتا میری بے باکی اتنی بڑھتی جاتی۔ مجھے ہر شے پر مزید گہرائی سے نظر رکھنا ہوتی، شاید کوئی انوکھی بات کوئی نیا تجربہ منکشف ہو۔

میں نے رسے کو پکڑ کر گلے میں ڈالنے سے پہلے اچھی طرح دیکھا کہ کہیں کوئی کانٹا رسے میں کوئی گانٹھ وغیرہ تو نہیں ہے؟ پھر مجھے شدید حیرت سے دو چار ہونا پڑا، کیونکہ میں خودکشی کرنے جارہا تھا اور اوپر سے مجھے یہ بھی کھٹکھا تھا کہ کہیں مجھے کوئی کانٹا بھی نہ چبھے، اپنی بے بسی پر مسکرا کر مجھے اپنی دماغی توازن پر شبہہ سا ہونے لگا کہ کہیں میں موت سے پہلے پاگل تو نہیں ہوچکا ہوں؟ پھر سوچا (شاید انسان کبھی بھی خوشی خوشی موت کو قبول نہیں کرسکتا ہے) کیونکہ میں کئی مہینوں سے پلاننگ کر رہا تھا، لیکن شومئی قسمت کہ میں نے اس موضوع پر کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی۔ بقول دوستو وسکی کہ ’’میں نے جب لائبریری کے ضعیف العمر بابے سے پوچھا کہ بابا جی خودکشی کے موضوع پر کوئی نایاب کتاب مل سکتی ہے؟ بابا جی مسکراتے ہوئے کہنے لگے آپ کتاب تو لے جاؤگے لیکن کتاب کو واپس کون لائے گا؟‘‘

بڑی سوچ بچار کے بعد آخر کار مجھے یہ ترکیب قدرے آسان محسوس ہوئی کہ بندہ پنکھے میں ہمیشہ کیلئے لٹک جائے۔ اس حیرت کے بعد میں ایک بار پھر سگریٹ جلاکر کر کمرے میں ٹہلنے لگا جیسے میرے کندھوں پہ کوئی متعفن لاش پڑی ہو، جسے ہر حال میں جلد از جلد ٹھکانے لگانا انتہائی ضروری ہو۔ جب بندہ معاشرے اور اس کے باسیوں کے رویوں سے تنگ آکر انتہائی درجے کا کنفیوژن کا شکار ہوتا ہے تو اسے ہر شخص کی نگاہیں چبھتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ اس سے بڑی مصیبت یہ ہوتی ہے کہ وہ انسانوں کو چھوڑ کر جانوروں کے ساتھ گزر بسر نہیں کرسکتا ہے، نہ ہی جنگلی دور کی طرح پھر سے ننگے دھڑنگے ہوکر پھر سے جانوروں سے گل مل سکتا ہے۔

خودکشی بھلے ہی اپنے لفظی اعتبار سے ایک الگ مفہوم کی حامل شے ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ اس عمل کیلئے خودکشی سے زیادہ (مرگ ناخوشی) مناسب لفظ ہوگا۔ کمرے میں ٹہلتے ٹہلتے میری نگاہیں کونے میں دبکی بیٹھی بلی پہ جا پڑیں۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے بلی شدید گھبراہٹ کا شکار ہے، اس کی نیلی آنکھوں سے وحشت صاف دکھائی دے رہی تھی، جیسے کوئی ہڈی اس کے حلق میں پھنسی ہوئی ہو، یا وہ بے چاری میرے ارادے کو بھانپ گئی تھی۔ جیسے ہی میں نے بلی کو اٹھایا، بلی مجھ سے لپٹ گئی۔ مجھے لگا کہ میں گلے پھاڑ کر زور زور سے جانوروں کی طرح چیخ چیخ کر دھاڑیں مار مار کر خوب روؤں، لیکن افسوس میں ایسا نہیں کر سکا، بس میری آنکھوں میں گرم گرم پانیوں کا کوئی ریلہ امڈ آیا۔ کئی مہینوں بعد مجھے لگا کہ میرا وجود کسی دلدل سے نکل رہا ہے۔ تب مجھے محسوس ہوا کہ زندگی میں کسی کے جسم کا میسر ہونا کتنی بڑی بات ہے۔ یہ پہلی بار تھا کہ میں بلی کو گلے لگا کر اس قدر زارو قطار رو رہا تھا، جیسے یہ بے زباں جانور جانتا تھا کہ میں کیوں رو رہا ہوں۔ تب مجھے یاد آیا کہ میں نے کئی سال پہلے کہیں پڑھا تھا کہ ( آنسو بھی کتنی عجیب چیز ہے، خود تو بہت شفاف ہے پر اس کے ایک ہی قطرے میں دل کے ارمان تک بہہ جاتے ہیں)۔

مدتوں بعد آج مجھے یہ حقیر جانور (بلی) کسی انسان سے اہم لگی، کیونکہ یہی وہ واحد وجود تھا جس سے میں بلا جھجک ہر احساس شیئر کررہا تھا۔ آج کی رات میرے لئے ایک بہت ہی مختلف رات تھی۔ دنیا نہ جانے کس سمت کو بھاگ رہی تھی، کیوں بھاگ رہی تھی؟ میں بلی کو بانہوں میں سمیٹ کر مسلسل ہچکیاں لے لے کر آنسو بہا رہا تھا۔ بلی بھی بہت سہمی ہوئی تھی، جیسے کنڈوم میں مقید انسانی نطفہ ایک جیتے جاگتے گناہ کی صورت میں خود کو مجرم کی صورت میں دیکھ کر ارواحِ عالم میں اپنا روح تلاش کرنے کیلئے بھٹکتا پھرتا ہے، لیکن اس نطفے کو کیا پتہ کہ یہاں ہر شے کنڈم میں مقید ہے، کوئی پس دیوار تو کوئی سرِ دیوار، ہر کوئی کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ نچوڑ رہا ہوتا ہے، کچھ صحت مند چھاتیوں کو نچوڑ کر تسکین حاصل کرتے ہیں تو کچھ آرام دہ کرسیوں اور لگژری کمروں میں بیٹھ کر غریبوں کے افلاس کے مارے شکن زدہ جیبوں کو نچوڑ رہے ہوتے ہیں۔ آج میری آنکھیں آنسوؤں کو قطرہ قطرہ کرکے نچوڑ رہی تھیں، جیسے زمین چیخ چیخ کر کہ رہی ہو کہ آسمان کا تسلط اب مزید مجھ پر نہیں ہونی چاہیے۔ یہاں کوئی سننے والا نہیں تھا کیونکہ ہر طوائف آسمان کو اپنی چھت مانتی ہے، شاید یہ کسی نیک صالح کوٹھے والی کی نیک دعا تھی کہ اب تک آسمان اپنی نیلاہٹ اوڑھے مستعدی سے قائم تھا۔

میری باہوں میں سہمی بلی کی نیلی آنکھیں جج کے کوٹ کے بٹنوں کی طرح چمک رہی تھیں۔ ایک لمحے کو مجھے لگا کہ بلی کہنا چاہتی ہے کہ آپ مجھے چھوڑ کہاں جارہے ہیں؟ میں اسے کیا بتاتا کہ میں کہاں جارہا ہوں؟ مرنے۔ نہیں یہ تو ایک مضحکہ خیز بات ہوتی بلکہ مجھے اس بے چاری سے فحش جھوٹ کے بجائے ننگا سچ کہ دینا بہتر ہوتا کہ ہاں میں جارہا ہوں، بہت دور، جہاں انسانوں کی رسائی نہ ہو، جہاں گروہ مذہب ذات پات سے بالاتر ہوکر ہم سب فقط انسان ہوکر اپنی زندگی کو جیئں اور دوسروں کو بھی انکا جیون جینے دیں۔ (جاری ہے)

Last moments of a suiciderSuicide