میکینکل انجینیئرنگ کے پروفیسر ہوڈ لپسن کی نگرانی میں قائم ’ڈجیٹل فوڈ‘ منصوبے پر ایک عرصے سے کام جاری رہا جس کے تحت مکمل خود کار ڈجیٹل شیف نظام بنانا ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے مرغی کے گوشت کو پیسا اور اسے تھری ڈی نوزل کی شکل میں ایک پلیٹ پر خاص شکل دی۔
ہم جانتے ہیں کہ اچھے کھانے میں اس کی ظاہری شکل، ذائقے اور غذائیت کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور درست ترین کوکنگ سے یہ مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ اس کے لیے پہلے تھری ڈی پرنٹر سے گوشت کی ہموار تہیں لگائی گئیں۔ پھر 445 نینومیٹر کی نیلی لیزر، 980 نینو میٹر اور 10 مائیکرون کی انفراریڈ اور نیئر انفراریڈ لیزر آزمائی گئیں۔ اس طرح تین لیزروں سے مرغی کے گوشت کے ٹکڑوں کو پکایا گیا۔ عام انداز سے پکانے کے مقابلے میں گوشت 50 فیصد کم سکڑا اور اس کی لذت اور نمی بھی برقرار رہی ۔ آخر میں گوشت کھایا گیا تو اس کا ذائقہ بہت اچھا تھا۔
ایک اور تجربے میں دو افراد عام چولہے اور لیزر چولہے سے پکایا گیا گوشت کھلایا گیا لیکن انہیں نہیں بتایا گیا تھا کہ کونسا گوشت کیسے پکایا گیا ہے۔ دونوں افراد نے لیزر پر بھونے گئے مرغی کے گوشت کو پسند کیا۔
کولمبیا کے سائنسداں اس کامیابی پر مسرور ہیں اور ان کے خیال میں یہ ایک کم خرچ نسخہ ہے۔ تاہم اس کے لیے ماحول دوست اور پائیدار نظام بہت ضروری ہے۔ تاہم انہوں نے اسے فوڈ کیڈ اور فوڈ فوٹوشاپ کا نام بھی دیا ہے۔ تاہم وہ دن دور نہیں کہ جب لیزر چولہے عام ہوں گے اور لوگ ایک دوسرے سے کھانا بنانے کے ڈجیٹل نسخوں کو تبادلہ کریں گے۔ تاہم اب تک اس سے گوشت ہی پکایا جاسکتا ہے