چند روز سے ایک دوست کے کچھ ضروری کام کے سلسلے میں ایک سرکاری دفتر جانا ہوتا رہا۔ اس دفتر سے پہلے بھی تعلق تھا مگر اس بار کام کچھ ذاتی نوعیت کا تھا تو اندازہ ہوگیا کہ صاحب یہ کلرک طبقے کے لیے جو القابات مشہور ہیں وہ کچھ اتنے غلط بھی نہیں۔
اندازہ ہوا کہ سرکاری دفاتر میں ہر میز کرسی پر موجود شخص اپنے آپ میں ایک عجیب قسم کا فرعون ہے جسے جب تک قومی خزانے کی شکل نہ دکھائی جائے کام نہیں بنتا یا جب تک دھونس دھمکی یا کسی سے فون نہ کرواؤ تو یہ مخلوق آپ کو گھانس نہیں ڈالے گی۔ خیر سے کام بھی عجیب تھا مگر تھوڑا بہت ہوا اور پھر کہیں فائل رک گئی۔ تمام تر لوازمات مکمل ہونے کے باوجود بھی ایک جگہ فائل پر غیر ضروری نوٹ لگا دیا گیا کہ ” ڈیتھ سرٹیفیکیٹ ” کے لیے گورگن سے حالیہ سال کی پرچی بنوا کر لائی جائے۔ جس دوست کا یہ کام تھا میں نے اسے فون کھڑکایا۔ ۔کچھ دیر بعد میں اس کے ساتھ ایک پرانے سے مگر شہر کے درمیان واقع قبرستان پہنچ گیا۔
گرمی کی شدت تھی یا پھر میرا ہی دن برا تھا۔ گورکن کی تلاش میں قبرستان کے داخلی دروازے پر موجود پھولوں والے سے لیکر ہر آتے جاتے شخص سے پوچھتے پوچھتے گھومتے گھماتے قبرستان کے درمیان واقع ایک چھوٹی سی چار دیواری کے سامنے پہنچ گئے۔ چار دیواری کیا تھی، جیسے کسی اللہ والی شخصیت کا مزار ہو۔ اس مزار کو ذرا بڑا کر کے اس کے اندر ایک دالان سا بنا دیا گیا تھا تا کہ چار افراد آرام سے پنکھے کے نیچے فرش پر سو لیں۔ وہاں پہنچ کر دیکھا تو ایک ضعیف العمر نحیف سے صاحب فرش پر لیٹے ہوئے ملے۔ کان پر موبائل لگا تھا اور موبائل پر تیز آواز میں "بھر دو جھولی میری یا محمد” مرحوم امجد صابری کی آواز میں قوالی چل رہی تھی۔ چار دیواری کے اندر جا بجا اگر بتیوں کی مہک پھیلی ہوئی تھی۔ میں پہلی نظر میں ہی ان صاحب کو قبرستان کا چیف گورگن سمجھ چکا تھا۔ بزرگ کے ساتھ دو لڑکے بھی تھے جو شاید مددگار ہوں گے۔ سلام دعا کے بعد معلوم پڑا کہ گورگن صاحب ہماری زبان سے واقفیت رکھتے ہیں۔ گورکن کے لیے یہ گویا خوشی کی خبر تھی۔ انہوں نے ایک لڑکے کو جلدی سے چائے لینے بھیجا تو دوسرے کو ہمارے دوست کے ہمراہ قبروں کا معائنہ کرنے اور ریکارڈ دیکھنے کے لیے بھیج دیا۔ گورکن اور میرے درمیان کئی دہائیوں کا فاصلہ ہوگا مگر کچھ ہی دیر میں ہمارے درمیان کا فاصلہ سمٹ کر چائے کے کپ میں ڈوب گیا تھا۔ مجھے کورٹ یونیفارم میں دیکھ کر پہلے تو وہ کچھ گھبرایا مگر پھر جلد ہی ہماری دوستی ہوگئی اور یوں ہنسی مذاق کیساتھ ماحول خوشگوار ہوگیا۔ دراصل مجھے بھی سوشل ہونے کا بہت شوق رہتا ہے سو اس بہانے نئے لوگوں کے خیالات جاننے کا بھی موقع مل جاتا ہے۔
گورکن چاچا سے میں نے اپنی عادت کے مطابق سوالات شروع کر دئیے اور چند سوالات جو گورکن چاچا میری جانب پھینکتا اور پھر میں ان کے تسلی سے جواب دیتا رہتا۔ گورکن نے بتایا کہ وہ پہلے کسی اور قبرستان کا انچارج تھا۔ وہاں پچیس سال خدمت کی اور اب بیس پچیس سال سے اس قبرستان میں قبروں کی دیکھ بھال کر رہا ہوں۔
میں نے اسے کریدا۔ ۔چاچا کیا کبھی کسی پچھل پیری، بد روح یا کسی چڑیل کو رات گئے قبرستان میں دیکھا ہے ؟ گورکن نے جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکالی اور میری جانب بڑھائی جسے میں نے شکریہ کے ساتھ واپس کر دیا۔گورکن نے ماچس جلا کر سگریٹ سلگائی اور آسمان کو دیکھتے ہوئے گہرا کش مارا۔ فضا میں دھواں چھوڑتے ہوئے کہا۔ ۔ہاں پیر جی، میں نے چڑیلیں دیکھیں ہیں۔ بد روح بھی، اور قبر سے باہر بیٹھی روتی لاشیں بھی۔ ۔میں اس کے اس دعوے پر بڑا حیران ہوا۔ ۔کیا کہہ رہے ہو چاچا؟ واقعی چڑیلیں ہوتی ہیں کیا ؟مذاق کر رہے ہو وکیل کے ساتھ ؟ ہم دونوں مسکرائے اور میں اس کی بات کو سمجھ نہ سکا۔ ۔سچ بتاؤ چاچا کیا واقعی تم نے لاشیں قبر سے باہر دیکھی ہیں؟ وہ بھی روتی ہوئی؟ اور چڑیلیں بدروح سب کچھ ؟
ہا منھنجا سائیں۔ ۔ ہاں میرے سائیں، چڑیلیں ہوتی ہیں، بد روح بھی ہوتی ہے اور جب لاش کو تکلیف دو تو وہ روتی ہے۔ میں تھوڑا گھبرایا اور دل ہی دل میں آیت الکرسی پڑھی۔ عصر کی اذان کا وقت ہو چکا تھا۔ قبرستان میں بالکل خاموشی چھا چکی تھی۔ آسمان بادلوں سے گِھر چکا تھا، درختوں سے خاموش ہوائیں ٹکرا رہیں تھیں۔ پرندوں نے بھی اچانک خاموشی اختیار کر لی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ پرندے بھی اب اِن درختوں سے اڑنے کو بے تاب ہوں۔ دور سے ٹریفک کی مدھم ہوتی اور کبھی فضا میں اڑتے کسی جہاز کی آواز ماحول کی خاموشی کو چیرتی ہوئی میری سماعتوں سے ٹکرا جاتی ۔ مگر میرا سوال وہ ہی تھا۔ ۔چاچا تو نے واقعی کسی چڑیل کو دیکھا ہے یا مذاق کر رہے ہو؟ نہ سائین۔ میرا بھلا تیری ذات سے کیا مذاق۔ مجھے دوزخ نہیں جانا، موت کی آغوش میں بیٹھا ہوں۔ ہاں سائیں میں نے چڑیل بدروح یہ سب دیکھی ہیں۔ کوئی اسے چڑیل کہتا ہےکوئی بد روح، کوئی روتی ہوئی لاش۔ ۔سائیں انہیں جب کوئی تکلیف دیتا ہے تو وہ آوازیں دیتی ہیں راتوں کو۔ کہتی ہیں، ہے کوئی ہمارے ساتھ انصاف کرنے والا؟ ہمیں واپس قبر میں ڈال دو۔ سائیں جنہیں انصاف نہیں ملتا، جن کے ساتھ برا ہوا ہو وہ راتوں کو قبر سے باہر گھومتی ہیں، چیختی ہیں، روتی ہیں، فریاد کرتی ہیں۔
ذرا دیر کو خاموشی ہوئی۔ ۔چاچا، چپ کیوں ہو۔۔ سائیں وہ رو رو کر بتاتی ہیں کہ ان کے ساتھ کس نے زیادتی کی مگر سائیں ان کی آواز آپ کو سنائی نہیں دے گی۔ مجھے سنائی بھی دیتی ہیں اور میں انہیں دیکھتا بھی ہوں۔ ان کا میرا رشتہ ہے۔ دکھ کا رشتہ، مٹی کا رشتہ، پانی کا رشتہ۔ ان کی قبروں کی صفائی جو کرتا ہوں۔ سائیں وہ میری قبریں ہیں اور میں انکا رکھوالا ہوں۔ وہ قبریں مجھے بلاتی ہیں۔ وہ آواز دیتی ہیں۔ ہمارا کہنے سننے کا رشتہ جو ہے۔سائیں میں ان کی دن رات خدمت جو کرتا ہوں۔ وہ مجھے کہانیاں سناتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں ان کے ساتھ کیا ہوا۔ مگر میں کسے بتاؤں؟ میری بات پر کون یقین کرے گا؟ لوگ کہیں گے بڈھا پاگل ہوگیا ہے۔ میں چپ ہوجاتا ہوں۔ میرے سینے میں کئی راز ہیں مالک۔ کئی راز ہیں۔ سگریٹ کے دھوئیں نے مہکتی اگربتیوں کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا تھا۔گورکن کو آج کوئی ملا تھا جو اسے سننا چاہتا تھا۔ وہ بولتا جا رہا تھا اور میں کہیں کھو چکا تھا۔ سائیں, ۔بہت سی قبریں ایسی ہیں جن پر آج تک کوئی نہیں آیا، میں ہی ان کا بھائی ہوں باپ بھی اور بیٹا بھی۔ چاچا تمہیں ڈر نہیں لگتا؟نہیں لگتا سائیں۔ ۔پھر بھی کسی سے تو ڈر لگتا ہوگا۔ نہیں سائیں۔ ۔بس پولیس کے علاوہ کسی سے ڈر نہیں لگتا۔ (اس بات پر ہم خوب ہنسے۔) ذرا دیر کو ماحول کا رخ پولیس اور عدلیہ کی جانب چلا گیا۔ چائے کا دوسرا دور چل نکلا تھا۔ چاچا، قبرستان کی کسی بات سے تو خوفزدہ ہوتے ہوگے؟ کوئی رات تو ایسی ہوگی جب نیند نہیں آئی ہوگی؟ ڈر لگا ہوگا۔ ہاں سائیں سچ بتاؤں؟ ہاں چاچا بولو۔ سائیں۔ مجھے اُس رات نیند نہیں آتی جب کسی عورت یا جوان لڑکی کو دفنایا جاتا ہے۔ ۔اس رات سے لیکر کئی راتیں میں اس قبر کی چوکی ( رکھوالی) خود دیتا ہوں۔ بار بار اس قبر کے گرد چکر لگاتا ہوں۔ کیوں چاچا عورت کی قبر کی حفاظت کیوں؟ ایسی کیا بات ہے؟ سائیں بات ہے۔ ۔سمجھو سائیں۔اگر چوکی نہیں دوں گا تو قبر کھل جائے گی اور لڑکی کی لاش باہر نکل کر روئے گی۔(گورگن مجھے کچھ سمجھانا چاہتا تھا) کیا مطلب چاچا؟ گورکن بولامرشد ایسی قبر جس میں عورت دفن ہو وہ محفوظ نہیں ہوتی۔ میں بھی بہن بیٹی والا ہوں سائین۔ ڈر لگتا ہے، منہ سے بات نکالی نہیں جاتی۔ گورگن چاچا نے جس گھبرائے ہوئے انداز سے میرے کان کے قریب آ کر جو سرگوشی کی۔ سن کرجسم کانپ کر رہ گیا۔ دھڑکن کی رفتار تیز ہوگئی، دل کی دھک دھک کانوں کو سنائی دینے لگی، سانس گلے میں اٹک گئی۔ درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھے پرندے یک دم پھڑپھڑانے لگے۔ میرے ہاتھوں کو جیسے رعشے کے مرض نے گھیر لیا ہو۔ ماتھا پسینے سے بھر گیا۔ ۔کالے کوٹ کے اندر آگ بھڑک چکی تھی۔ شرٹ پسینے سے شرابور تھی۔ بڑی مشکل سے چائے کا کپ فرش پر رکھا ۔چاچا کیا یہ سچ ہے؟ ہاں سائیں سچ ہے بالکل سچ۔ اُس رات مجھے نیند نہیں آتی جس رات کسی عورت کا یا جوان لڑکی کا جنازہ دفنایا جاتا ہے۔ دور سے میرا دوست گورگن کے بیٹے کے ساتھ واپس آرہا تھا۔ میں بڑی مشکل سے اٹھا، ایسا لگا کہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور یہاں بیٹھے بیٹھے کچھ ہی وقت میں، میں نے زندگی کے کئی سال گزار دیئے ہوں۔ میں نے جاتے ہوئے اپنا کارڈ گورکن کو دیا اور کہا کہ چاچا پولیس سے ڈرنا نہیں، کبھی کوئی کام ہو تو مجھے فون کرنا۔ اس نے میرا کارڈ خوشی خوشی لیا اور جیب میں رکھ لیا۔ میں بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے دوست کے ساتھ باہر نکلا۔ باہر قدم ہی رکھ تھا کہ دیکھا قبرستان کے باہر ایک میت گاڑی کھڑی تھی۔ کلمہ شہادت کی گونج ۔ میں دوست کے ساتھ رک گیا یہ سوچ کر کہ چلو کاندھا دے لیتے ہیں۔ ایک صاحب قریب ہی پھول پتیوں کے اسٹال پر گلاب کی پتیوں سے بھری شاپر لیے کھڑے تھے۔ میں نے ان سے پوچھ لیا۔ کون فوت ہوا ہے؟ وہ صاحب بولے۔ پڑوسی کی بچی تھی۔ اچھی خاصی تھی نہ کوئی بیماری نہ کوئی تکلیف۔ پانی کی موٹر چلانے گئی تو کرنٹ لگ گیا۔ میں دوست کا ہاتھ پکڑ کر فوراً قبرستان سے باہر نکل آیا۔ یہ ہی سوچتے ہوئے کہ آج کی رات گورگن پر واقعی بھاری گزرے گی اور شاید مجھ پر بھی!