آج کل کے اس جدید دور میں سوشل نیٹورکنگ سائٹس نوجوانوں کےلئے کافی کارآمد ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوان باآسانی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور زندگی مختلف پلیٹ فارمس پر اپنے لئے مواقع تلاش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے مثبت نتائج کے ساتھ ساتھ نوجوانوں پر منفی اثرات بھی ہیں۔
ایک ملک کے باشندے دوسرے ملکوں سے باآسانی رابطہ کر سکتے ہیں اور اس ذریعے سے ثقافت کا تبادلہ ہوتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو جان سکتے ہیں، پوری دنیا اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے 1945 سے یہ مطالبہ کر رہی تھی کہ جس دن ملکوں کے دیگرملکوں کے ساتھ تعلقات، لوگوں کے لوگوں کے ساتھ تعلقات میں تبدیل ہوجائیں گے.
اس وقت دنیا میں امن ہوجائے گا تو گویا سوشل میڈیا نے اس ناممکن کام کو بھی آسان بنا دیا ہے اور پوری دنیا کی نوجوان نسل ایک دوسرے سے معلومات کے تبادلے کے ساتھ خیال و فکر کا تبادلہ بھی کر رہے ہیں جس نے رواداری کو جنم دیا ہے اور عدم برداشت ختم ہوتا جا رہا ہے. سوشل میڈیا کو اگر معلومات کا خزانہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیوں کہ اب بہت ساری کتابیں جنہیں مختلف تہذیب و تمدن، مختلف زبان ، مختلف مکتبہ فکر اور مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے لکھا ہے، اب وہ آپ کی کلک پر آپ کے سامنے ہونگے۔ آج کا نوجوان کسی بھی اہم موضوع پر اگر اپنا تھیسس مکمل کرنا چاہتا ہے تو سوشل میڈیا اسے مکمل معلومات فراہم کرتا ہے، پوری دنیا کے اخبارات کو سوشل میڈیا کے ذریعے پڑھ کر آپ ہر ملک کے حالات و واقعات سے آگاہ رہتے ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کی وجہ سے معاشرے میں بہت سی اخلاقی و سماجی خرابیوں نے فروغ پایا اور ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں جو معاشرے کے مختلف طبقات اورمکاتبِ فکر میں ایک دوسرے سے نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار کا سبب بن رہی ہیں۔ معاشرے میں بیشتر افراد اسے لوگوں کو بدنام کرنے کیلئے بے بنیاد خبروں کو پھیلانے، تصاویر اور خاکوں میں ردوبدل جیسے طریقوں کے ذریعے غلط استعمال کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کسی بھی خبر یا افواہ کی تحقیق سے بھی پہلے وہ پوری دنیا میں نشر کر دی جاتی ہے، سوشل میڈیا پرکسی قسم کی کوئی روک تھام کا نظام موجود نہیں، ہر شخص اچھی بری بات کہنے اور لکھنے میں آزاد ہے۔
کوئی شخص بلاروک ٹوک کسی بھی مذہبی شخصیت ، مخالف مذہبی سوچ کی محترم شخصیات پرکیچڑ اچھال سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر مخالفین کیخلاف پروپیگنڈے کی مکمل آزادی کی وجہ سے معاشرے میں انتہا پسندی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے معاشروں میں پاکستانی سماج بھی شامل ہے، جہاں ہر ٹیکنالوجی کے منفی اثرات اسکے مثبت اثرات کے مقابلے میں زیادہ شدت سے فروغ پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کا منفی استعمال دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھنے والے افراد فیس بک ، ٹوئٹر،انسٹاگرام اور دیگر سائیٹس پر مخالف سیاست دانوں کیلئے انتہائی نازیبا زبان استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ فیس بک سمیت بیشتر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر اس طرح کی زبان استعمال کرنے اور اس نوعیت کی تصاویر اور وڈیوز اپ لوڈ کرنے کی مکمل آزادی ہے۔
اس رجحان کے باعث نہ صرف فیس بک پر بلکہ عملی زندگی میں بھی مختلف سیاسی و مذہبی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان دوریاں بڑھ رہی ہیں ، بہت سی اخلاق باختہ وڈیوز کے ذریعے سوشل میڈیا نوجوانوں کو برائی اور جرم کی طرف بھی راغب کردیا ہے، وڈیوز اپ لوڈنگ میں کوئی خاص چیک نہ ہونے کی وجہ سے وومین حراسمنٹ اور چائلڈ ابیوز کی ووڈیوز سے جرائم جنم لیتے ہیں اور تو اور دنیا کی بدنام ترین جرائم پیشہ اور دہشت گرد تنظیمیں بھی سوشل میڈیا کے ذریعے سادہ لوح نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ سوشل میڈیا کا استعمال اگر مثبت ہو تو معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور منفی استعمال منفی اثرات مرتب کرتا ہے، ا س لیے نوجوانوں کی اس ضمن مین کونسلنگ ضروری ہے انہیں بتا یا جائے کہ سوشل میڈیا چاقو کی طرح ہے چاہیں تو اس سے پھل سبزیاں کاٹیں یا پھر منفی استعمال کر کے لوگوں کےگلے کاٹ لیں۔