نور بانو، سندھ کی گم گشتہ آواز

نثار نندوانی

سندھ کی لوک گلوکارہ نور بانو 1942 میں پیری لاشاری ضلع بدین سندھ کے قریب گاؤں میتھو گوپانگ میں پیدا ہوئی تھیں۔ بعد میں وہ تلہار سندھ چلی گئیں۔ ان کے والد کا نام سلیمان گوپانگ تھا، جو ایک غریب کسان تھے۔ وہ کسی اسکول میں تعلیم حاصل نہ کرسکیں۔

نور بانو کی آواز اتنی خوبصورت اور ان کا گلا اتنا سریلا تھا کہ وہ آس پاس کے دیہات میں شادی کے گیت گانے لگیں۔ انہوں نے حیات گوپانگ اور استاد مٹھو کچھی سے موسیقی کی تربیت حاصل کی۔ معروف اسکالرز پیر علی محمد شاہ راشدی اور پیر حسام الدین شاہ راشدی کو سندھ کی موسیقی اور ثقافت سے پیار تھا۔ انہوں نے تلہار میں سید وڈل شاہ راشدی کی رہائش گاہ کا دورہ کیا۔ سید وڈل شاہ نے ان کے اعزاز میں موسیقی کی ایک محفل کا اہتمام کیا۔ نور بانو کو اس محفل میں فن کا جادو جگانے کے لیے بلایا گیا تھا۔ مہمان ان کی فطری میٹھی آواز سے بہت متاثر ہوئے اور انہیں ریڈیو پاکستان حیدرآباد میں گانے کا مشورہ دیا۔

پیر زمان شاہ راشدی، سید وڈل شاہ کے صاحب زادے نے ان کا تعارف 1960 کی دہائی کے آخر میں ریڈیو پاکستان میں کیا۔ ریڈیو پاکستان میں ان کا پہلا گانا تھا "منهنجي ماروئڙن جون ٻوليون سڃاڻان” یعنی "میں اپنے عوام کی زبانیں جانتی ہوں” ریڈیو پر پیش ہوا تو اسے عوام الناس میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی اور یہ گیت سپر ہٹ ثابت ہوا۔ اس گیت سے نور بانو سندھ کے ہر گاؤں میں مقبول ہو گئیں۔ ان کا دوسرا ہٹ گیت تھا، "منهنجي متھرں مارون تی ائے آلا ککر چھانو کجان۔” 1970 اور 1980 کی دہائی میں وہ سندھ کی مشہور لوک گلوکاراؤں میں شامل تھیں۔ریڈیو پاکستان میں انہوں نے زیادہ تر گانے بطور تنہا گلوکارہ گائے، تاہم انھوں نے مشہور گلوکاروں ماسٹر محمد ابراہیم، مٹھو کچی، زرینہ بلوچ اور آمنہ کے ساتھ بھی کئی گیت گائے۔

نور بانو اپنے سندھی ڈھولک گیتوں کے لیے بھی مشہور تھیں، جنہیں "لاڈا” یا "سہرا” کہتے ہیں۔ یہ گیت شادی بیاہ کے موقع پر گائے جاتے ہیں۔ ان کے کچھ گیت ریڈیو پاکستان حیدرآباد کی میوزک لائبریری میں دستیاب ہیں۔ وہ 14 فروری 1999 کو سندھ کے شہر تلہار میں انتقال کرگئیں۔ انہیں حیدر شاہ لکیاری قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

Forgotten voice of SindhNightingale of Sindh Noor Bano