اس شہر کے پولیس والوں پر الزام ہے کہ یہ کام نہیں کرتے اور بس رشوت ستانی میں مشغول رہتے ہیں ، کسی حد تک یہ الزام درست بھی ہے کہ نوجوانی سے آج تک پولیس والوں کو اسنیپ چیکنگ کے نام پر ایسی ایسی حرکتیں کرتے دیکھا ہے کہ الحفیظ و الامان، یہی پولیس والے ہیں جو محض سو پچاس روپے لے کر کسی بھی کم عمر نوجوان کو اپنی اور دوسروں کی جان سے کھیلنے کا اختیار دے دیتے ہیں۔ لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے، فیس بک کی ایک پوسٹ سامنے آئی تو دوسال قبل کے دوواقعات ذہن کے پردے پر اجاگر ہوگئے ، کراچی کے علاقے صدر میں ایک موٹرسائیکل میں بم نصب پایا گیا ، پولیس بروقت پہنچی اور بم کو ناکارہ بنایا گیا۔ اس موقع پر اہلکار لوگوں کو موقع سے ہٹاتے رہے لیکن عوام ایسے جمع تھے کہ جیسے ابھی بم ناگن ڈانس کرکے دکھائے گا۔
پہلا واقعہ سوشل میڈیا پر بہت مقبول ہوا۔ ایک اور واقعے کا میں عینی شاہد ہوں، اسی واقعے کے دور وز بعد ہماری ایک رشتے دار کو رات گئے طبی امداد کی ضرورت پیش آئی۔ اسپتال سے واپسی میں لگ بھگ چار بج گئے تھے، ضلع وسطی کے علاقے کریم آباد سے اپنے گھر آنے کے لیے گاڑی گھمائی تو پولیس اسکواڈ ایک گاڑی کو گھیر کر کھڑا تھا ، کچھ لوگ حراست میں تھے اور گاڑی چیک کی جارہی تھی۔ ایک پولیس اہلکار نے انتہائی درشت لہجے میں کہا کہ جلدی گاڑی نکال۔ صحافی کیونکہ 24 گھنٹے صحافی ہوتا ہے تو فوراً ہی ڈیش بورڈ پر رکھا ہوا میڈیا کارڈ اٹھایا اور پولیس اہلکار کو دکھا کر پوچھا کہ ہوا کیا ہے، اس نے جھلائے ہوئے لہجے میں بتایا کہ ایک گاڑی میں بم کی اطلاع تھی، چیکنگ کے دوران پکڑلی ہے، بم کو ناکارہ بنایا جارہا ہے ، آپ جلدی گاڑی نکالیں یہاں خطرہ ہے۔ بم کا سنتے ہی میں نے اسے اچھا کہا اور گاڑی آگے بڑھادی کہ ساتھ موجود خاتون دو بیٹیوں کی والدہ تھیں اور ان کا صحافت سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔
سپاہی کے لہجے کی درشتی اس لمحے اچھی لگی کہ وہ اس لہجے میں بات نہ کرے تو ہماری قوم ایسے مواقع پر جہالت کے انتہائی مظاہرے کرتے ہوئے بم کا انٹرویوکرنے کھڑی ہوجاتی ہے۔ سپاہی کی ہمت کو سلام کہ جسے معلوم ہے کہ بم کو ناکارہ بنایا جارہا ہے جو کہ پھٹ بھی سکتا ہے، پھر بھی بغیر کسی حفاظتی لباس کے اپنی ڈیوٹی میں مشغول رہا۔
نوٹ: یہ بلاگر کی اپنی ذاتی رائے ہے. وائس آف سندھ اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔