کچھ عرصہ قبل جامعہ کے دوستوں کے ساتھ چائے کے ہوٹل پر بیٹھے اچانک پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی سیر کا پروگرام بنا اور تمام دوست خیبر پختون خواہ کی جنت نظیر وادی شانگلہ جانے کے لیے متفق ہوگئے۔ ساتھ جانے والے دوستوں میں سے دو لڑکے اسی ضلع کے رہائشی بھی تھے۔ اس خوبصورت اور حسین علاقے کو دیکھ کر جہاں خوشی ہوئی وہیں کچھ افسوس بھی ہوا۔ خوشی اس بات کی کہ ہمارے ملک پاکستان کا ہر شہر ہر علاقہ قدرتی حسن میں اپنی مثال آپ ہے۔
شانگلہ کے بلند و بالا پہاڑ اور اس کی ہریالی، وہاں ہوتی ہوئی برف باری دیکھ کر دل تروتازہ ہو جاتا ہے۔اور انسان اپنی تمام پریشانیاں بھول کر قدرت کے دلکش نظاروں میں کھو جاتا ہے اور بے اختیار اس کے منہ سے بس ایک ہی آواز نکلتی ہے "اور تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے”۔ صبح سویرے پرندوں کے چہچہانے کی آواز انسان کے دل کو ایک الگ ہی سکون اور راحت بخشتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ پختونوں کی مہمان نوازی جس کے بارے میں صرف سنا ہی تھا وہاں جا کر اس بات کا بھی مشاہدہ کر لیا کہ مہمان نوازی میں کوئی قوم پختون سے آگے نہیں۔ جتنا سنا تھا اس سے کئی گنا اچھا پایا۔
مشہور روایتی کھانوں سے ہماری تواضع کی گئی۔ مقامی لوگ اس گرم جوشی سے ملے جیسے کتنے عرصے سے ہم ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔ تمام تر اچھایؤں کو ایک طرف رکھ کرکچھ افسوس ناک پہلو بھی ہیں جن کا ذکر کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ وہ یہ کہ یہاں کے لوگ آج سے تقریباً تیس سال پیچھے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مکان کچے ہیں، تعلیمی نظام نہ ہونے کے برابر، علاقے میں نہ بجلی ہے نہ گیس نہ ہی نکاسیِ آب کا کوئی ذریعہ۔ برف باری کے باعث سڑکیں مکمل بند ہوجاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام چار سے چھ گھنٹے پیدل سفر کر کے اپنے گھروں تک پہنچتے ہیں ساتھ ساتھ اس ضلع کا دیگر اضلاع سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔
کسی ایمرجینسی کی صورت میں کوئی کلینک یا ہسپتال کی سہولت موجود نہیں۔ شانگلہ جیسے کتنے ہی ایسے خوبصورت علاقے ہیں جو حکومت کی عدم توجہی کے باعث اپنا حسن کھوتے جا رہے ہیں۔ اگر ان مسائل کی جانب حکومت توجہ دے تو شانگلہ بلکہ اس جیسے دیگر کئی خوبصورت علاقے نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سیاحوں کے لئے بھی بہترین تفریح گاہ بن سکتے ہیں۔ جس سے ملکی معیشت پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔