اسلام آباد: معاون خصوصی احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ براڈ شیٹ کیس سے ایک چیز واضح ہوتی ہے کہ ماضی کی ڈیلز اور این آر او کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے.
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ براڈ شیٹ کے معاملے پر ملک میں بڑی بحث ہورہی ہے، براڈ شیٹ کے وکلا سے تحریری طور پر وہ فیصلے پبلک کرنے کی اجازت لی جو پہلے پبلک نہیں تھی، وزیراعظم کی ہدایت پر ہم نے براڈ شیٹ کے وکلا سے اپنے وکلا کے ذریعے رابطہ کیا اور اب حکومت براڈ شیٹ معاملے کے تمام حقائق سامنے لے آئی ہے۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ نیب اور براڈشیٹ کے درمیان معاہدہ جون 2000 میں ہوا، جولائی 2000 میں انٹرنیشنل ایسٹ ریکوری فرم سے ایک دوسرا معاہدہ ہوا، دسمبر 2000 میں نواز شریف ڈیل کرکے سعودی عرب چلے گئے تھے، 28 اکتوبر 2003 میں نیب نے براڈشیٹ کے ساتھ معاہدہ منسوخ کردیا۔ براڈ شیٹ کے ساتھ جنوری 2016 میں لائیبلٹی کا کیس شروع ہوا، اگست 2016 کو اس لائیبلیٹی کیس کی سماعت شروع ہوتی ہے، براڈ شیٹ کے معاملے پر ہائی کورٹ فیصلے پر حکومت پاکستان نے جولائی 2019 کو اپیل فائل کی تھی، اس کا فیصلہ براڈشیٹ کے حق میں آیا۔
معاون خصوصی نے کہا کہ عوام کو براڈشیٹ کیسز ماضی کی ڈیلیں اور این آر او کی قیمت ادا کرنا پڑرہی ہیں، 31 دسمبر 2020 کو براڈشیٹ کو مکمل ادائیگی کردی گئی، 20 مئی 2008 میں براڈشیٹ کے ساتھ سیٹلمنٹ ہوئی اور 1.5 ملین ڈالرز کی ادائیگی ہوئی، 21 ملین کی ادائیگی میں شام گروپ کی مد میں 48740 ڈالر دینا پڑے، شیرپاؤ گروپ کی مد میں 2 لاکھ ڈالر دینا پڑے، 21 میں سے 20 ملین ہمیں صرف شریف فیملی کی مد میں ادائیگیاں کرنا پڑیں، ایک چیز واضح ہوتی ہے کہ ماضی کی ڈیلز اور این آر او کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے، ہمیں 2007 کے این آراو کی قیمت بھی ادا کرنا پڑرہی ہے، نوازشریف کی ایون فیلڈ پراپرٹی کی تحقیق کا حصہ بھی براڈ شیٹ کو دینا پڑا۔