گزشتہ روز آفس سے گھر کی جانب روانہ ہونے کے لیے آفس سے باہر آیا، اور روڈ کی جانب گامزن ہو گیا۔ آفس اور گھر کی مسافت تقریباً کوئی 20 منٹ کی تھی۔ افطاری کا وقت قریب تھا، سڑک پر عجیب سی نفسانفسی کا سا سماں تھا، گھر کے قریب پہنچا تو میری بائیں جانب سے ایک سوزوکی گزری اور اس میں کھڑا ایک شخص پاس کھڑے لوگوں پر بریانی سے بھری تھیلیاں اچھال رہا تھا۔ اور دیکھتے دیکھتے آس پاس موجود تمام لوگ ہی اس سوزوکی اور اس میں موجود شخص پر پِل پڑے۔ اور میں تیزی سڑک کی ایک جانب ہوگیا اور یہ تمام منظر دیکھنے لگ گیا۔ کچھ دیر بعد اس سوزوکی سے لوگوں کا رش چھٹنا شروع ہوا تو مجھے تجسس ہوا کہ میں اس سے کچھ گفتو شنید کروں اور معلوم کروں کہ وہ کہاں سے یہ لے کر آیا اور کتنی مقدار تھی۔ اور اسی طرح کے مزید کچھ سوال اپنے ذہن میں بٹھا کر اس کی جانب بڑھا۔
یہاں یہ بات بتانا بھی ضروری ہے کہ ہم ترقی تو ضرور کر رہے ہیں مگر افسوس کے ساتھ اس بات کو بھی ماننا پڑے گا کہ ہم میں معاشرے کے اخلاقی اقدار اب بھی نہیں یا شاید ہم نے ان کو سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ بحرحال میں نے اس سوزوکی والے سے گفتگو کا آغاز کیا۔ میں نے سے پہلا سوال یہ کیا کہ میرے پیارے بھائی آپ کام تو بہت اچھا کر رہے ہیں مگر جو طریقہ کار آپ نے اپنایا وہ بلکل درست نہیں تھا؟ اس نوجوان نے میری جانب جھلاہٹ سے دیکھا اور کہا کہ آپ نے تمام احوال دیکھا۔۔۔ میں ہاں میں سر ہلایا۔۔۔ تو اس نے سوالیہ نظروں سے کہا کہ اب آپ خود فیصلہ کرلیں کہ میرے تقسیم کرنے کا کونسا انداز بہتر ہے؟۔۔ پھر چند سیکنڈ کی خاموشی کے بعد اس شخص نے کہا کہ ہماری عوام کو فری میں آپ زہر ہی کیوں نہ دے دیں وہ اس کو حاصل کر کے خوشی خوشی کھا لیں گے۔ لیکن جب بات خود خردینے کی آئے تو 10 روپے کی چیز میں ہر نقطہ کو مد نظر رکھتے ہیں۔
میں اس سے مزید کچھ اور سوال کرنا چاہتا تھا لیکن وقت کی قلت کے باعث میں ایسا کرنے سے قاصر رہا۔ اور سلام دعا کے بعد میں نے گھر کی راہ لی اور راستے میں یہی سوچ رہا تھا کہ وہ کون لوگ ہیں جو خودداری کی خاطر بھوکے مرنا تو پسند کرلیتے ہیں لیکن کبھی عزتِ نفس کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرتے۔ لہذا میری تمام پڑھنے والوں سے التماس ہے کہ اپنے اندر خودداری اور عزت نفس کو زندہ کیجیئے تاکہ ایک اچھے اور بہتر معاشرے کی تشکیل ہو سکے۔