واشنگٹن: اگلے پانچ سال میں دنیا میں گرمی کا نیا ریکارڈ قائم ہونے سے متعلق سائنس دانوں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ماہرینِ موسمیات نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ اس بات کا 40 فیصد خدشہ ہے کہ اگلے پانچ برس میں دنیا کا درجہ حرارت اس حد سے آگے بڑھ جائے گا جس سے آب و ہوا سے متعلق پیرس معاہدے کے ذریعے بچنے کی کوشش کی گئی ہے۔
موسمیاتی ماہرین کی عالمی تنظیم (ڈبلیو ایم او) نے تازہ پیش گوئی میں کہا کہ دنیا میں 2025 کے اختتام تک گرم ترین سال کا نیا ریکارڈ بننے کا اندیشہ 90 فیصد ہے اور بحراوقیانوس میں آئندہ برسوں میں جنم لینے والے سمندری طوفان زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس سال شمالی نصف کرہ ارض پر خشکی کے زیادہ تر حصوں میں درجہ حرارت حالیہ عشروں کے مقابلے میں 1.4 ڈگری فارن ہائٹ زیادہ ہوگا جو قریباً 0.8 ڈگری سینٹی گریڈ کے مساوی ہے۔
دھیان رہے کہ 2015 میں آب و ہوا سے متعلق پیرس معاہدے میں درجہ حرارت کو ایک ڈگری کے چند دسویں حصوں کے لگ بھگ گرم رکھنے کا ہدف طے کیا گیا تھا، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 40 فیصد خدشہ ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں کم از کم ایک سال ایسا ہوسکتا ہے، جس میں درجہ حرارت صنعتی دور سے قبل کے عالمی درجہ حرارت کے مقابلے میں ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ یعنی 2.7 ڈگری فارن ہائٹ سے زیادہ ہو۔
پچھلے سال موسمیات کے ماہرین کی ٹیم نے اپنی پیش گوئی میں کہا تھا کہ درجہ حرارت میں اضافے کا خدشہ 20 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ موسمیات کے برطانوی سائنس دان لیون ہرمن سن کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت میں اس دگنے اضافے کی وجہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کی رفتار ہے۔
پنسلوینیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے موسمیاتی امور کے سائنس دان مائیکل مان کا کہنا ہے کہ کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھنے سے سمندری طوفانوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہورہا ہے جو بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان کا سبب بن رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ صورت حال اگلے کئی عشروں تک برقرار رہ سکتی ہے، تاہم اس پر ٹھوس اقدامات کے ذریعے قابو پایا جاسکتا ہے۔