اسلام آباد: عدالت عظمیٰ میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر مختلف درخواستوں پر سماعت کے دوران عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل پر فوری حکم امتناع دینے کی درخواست مسترد کردی۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بینچ کا حصہ ہیں۔
آج سماعت کا آغاز ہوا تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری روسٹرم پر آگئے۔
عابد زبیری کا کہنا تھا کہ ہم نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے معاملے پر درخواست دائرکی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں خوشی ہےکہ سپریم کورٹ بار کی جانب سے بھی درخواست آئی، اچھے دلائل کو ویلکم کرتے ہیں، جب درخواست کو نمبر لگےگا تب دیکھ لیں گے۔
پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ گزشتہ روز آئی ایس پی آر کی جانب سے پریس کانفرنس کی گئی ہے، آئی ایس پی آر نے 102 افراد کے ٹرائل کی بات کی، اٹارنی جنرل اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے متضاد بیانات ہیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میں آج بھی اپنے بیان پر قائم ہوں، عدالت میں وزارت دفاع کے نمائندے موجود ہیں وہ بہتر صورت حال بتاسکتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہمیں اٹارنی جنرل کے بیان پر یقین ہے۔
عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میرا موقف ہے کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا، فوجیوں کے ٹرائل اور عدالت کے اختیارات سے متعلق بات نہیں کروں گا، کیا کوئی جرم آرمی ایکٹ کے اندر آسکتا ہے یا نہیں یہ الگ سوال ہے، دیکھنا یہ ہوگا کہ افواج سے متعلق جرائم پر ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ ججزکی تقرری کا آرٹیکل 175(3) 1986 میں آیا، جن عدالتی نظائرکی بات آپ کر رہےہیں ان کے مقابلےمیں اب حالات و واقعات یکسر مختلف ہیں۔ جسٹس منیب کا کہنا تھا کہ ایسا کیا ہے جس کا تحفظ آئین فوجی افسران کو نہیں دیتا لیکن باقی شہریوں کو حاصل ہے؟
وکیل عزیربھنڈاری کا کہنا تھا کہ فوجی جوانوں اور افسران پر آئین میں درج بنیادی حقوق لاگو نہیں ہوتے، میرے دلائل صرف سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف ہوں گے، فوجیوں کے خلاف ٹرائل کے معاملے سے میرا کوئی لینا دینا نہیں، پارلیمنٹ آئینی ترمیم کے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کی اجازت نہیں دے سکتی، 21 ویں آئینی ترمیم میں اصول طےکیا گیا کہ سویلین کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے۔
جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ اگر اندرونی تعلق کا پہلو ہو تو کیا تب بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا؟ جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ اندرونی تعلق کے بارے میں جنگ اور دفاع کو خطرات جیسے اصول 21 ویں ترمیم کیس کے فیصلے میں طے شدہ ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ آئی ایس پی آر کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعد صورت حال بالکل واضح ہے، کیا سویلین کا افواج سے اندرونی تعلق جوڑا جا رہا ہے؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے سپریم کورٹ میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع ہونےکی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کسی سویلین کا ٹرائل نہیں چل رہا، فوجی عدالتوں میں ابھی جو کارروائی چل رہی ہے وہ فوج کے اندر سے معاونت کے الزام کی ہے۔
جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ ایف بی علی کیس کے مطابق سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل ہوسکتا ہے، عدالتی نظائر کے مطابق اگر سویلین کے افواج میں اندرونی تعلقات ہوں تب فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے،کون طےکرتا ہےکہ سویلین کے اندرونی تعلقات ہیں لہٰذا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوگا؟
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ایف بی علی کیس کے مطابق سویلین کا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل جنگی حالات میں ہوسکتا ہے، جنگی حالات نہ ہوں تو سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نےکہا کہ اٹارنی جنرل ملزمان کی حوالگی سے متعلق بتائیں کہ کون سا قانون استعمال کیا جارہا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزمان کی حوالگی سے متعلق 2 ڈی ون کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دلچسپ بات ہےکہ ہمارے پاس آفیشل سیکرٹ ایکٹ دستیاب ہی نہیں، ہوا میں باتیں کی جا رہی ہیں، 2 ڈی ون کے تحت کون سے جرائم آتے ہیں؟ عدالت کی معاونت کریں۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ سویلین کے فوجی عدالت میں ٹرائل کی اجازت کے صوابدیدی اختیار کا استعمال شفافیت سے ہونا چاہیے۔
عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ سویلین کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن2 ڈی تو کہتا ہےکہ یہ ان افراد پر لاگو ہوگا جو افواج سے نہیں ہیں۔ وکیل عزیر بھنڈاری کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کا اطلاق ان سویلین پر ہوتا ہے جو افواج کی کارروائی پر اثر انداز ہوں۔
جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ جب آرمی ایکٹ میں درج جرم ریکارڈ پر نہیں تو اے ٹی سی نے حوالگی کی اجازت کیسے دی؟ وکیل عزیربھنڈاری کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 175 تھری جوڈیشل طریقہ کارکی بات کرتا ہے، آئین کے آرٹیکل9 اور 10 بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں، یہ تمام آرٹیکل بھلے الگ الگ ہیں مگر آپس میں ان کا تعلق بنتا ہے، بنیادی حقوق کا تقاضہ ہےکہ آرٹیکل 175 تھری کے تحت تعینات جج ہی ٹرائل کنڈکٹ کرے، سویلین کا کورٹ مارشل ٹرائل عدالتی نظام سے متعلق اچھا تاثر نہیں چھوڑتا، کسی نے بھی خوشی کے ساتھ سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی اجازت نہیں دی۔
جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کے لیے جرم آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہونا چاہیے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ دکھائیں۔ وکیل عزیربھنڈاری کا کہنا تھا کہ آفیشل آرمی ایکٹ کے مطابق کسی بھی ممنوع علاقے پر حملہ یا استعمال جس سے دشمن کو فائدہ ہوجرم ہے۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ ممنوعہ علاقہ تو وہ ہوتا ہے جہاں جنگی پلانز یا جنگی تنصیبات ہوں۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ آرمی افسران کا سب سے اہم مورال ہوتا ہے، آرمی افسران کا مورال ڈاؤن کرنے سے ان کا دشمن سے لڑنےکا جذبہ کم ہوتا ہے، آرمی افسران اپنے ہائی مورال کی وجہ سے ہی ملک کی خاطر قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں۔
وکیل عزیربھنڈاری کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ میں کچھ جرائم 2015 اور پھر 2017 میں شامل کیے گئے، احمد فراز کے فوج کے خلاف اشعار لکھنے پر کیس چلا تھا، احمد فراز کے قریبی ساتھی سیف الدین سیف نے ان کا کیس لڑا، احمد فراز کیس کے فیصلے میں بھی کہا گیا کہ سویلین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا، 9 مئی کے واقعات کی ایف آئی آر انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت کاٹی گئیں، یہ جرائم قابل ضمانت ہیں، آرمی ایکٹ میں نہیں آتے، اعتزازاحسن نے اپنی پٹیشن میں حبس بےجا کی بھی درخواست دی ہے۔
جسٹس منیب کا کہنا تھا کہ کسی پر آرمی ایکٹ کے تحت چارج ہی نہیں تو فوج تحقیقات کیسے کرسکتی ہے؟ جب کوئی آرمی ایکٹ کے دائرے میں نہیں آتا تو اس کے خلاف کارروائی کیسے ہوسکتی ہے؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سمجھ سے باہر ہے کہ جب کسی کے خلاف ثبوت نہیں تو فوج گرفتار کیسے کرسکتی ہے؟ جسٹس منیب کا کہنا تھا کہ ایک مجسٹریٹ بھی ملزم کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتا جب تک پولیس رپورٹ نہ آئے۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ اب تک کے ریکارڈ کے مطابق تو گرفتار افراد کے خلاف کوئی چارج نہیں، چارج کے بغیرکیسے کسی کو فوجی تحویل میں رکھا جاسکتا ہے؟
جسٹس منیب نے وکیل عزیربھنڈاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ملٹری انصاف صرف فوجیوں کو مدنظر رکھ کر ہی ڈیزائن کیا گیا ہے، آپ کہہ رہے کہ فوجی انصاف عام شہریوں کے لیے نہیں؟
جسٹس مظاہرنقوی کے سوال پر وکیل عزیر بھنڈاری کا کہنا تھا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے، ایف آئی آرمیں تو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا ذکر ہی نہیں، آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم سے تحفظ پاکستان ایکٹ ضم کرکے انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئیں،2017 میں ترمیم کرکے 2 سال کی انسداد دہشت گردی کی دفعات کو شامل کیا گیا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ سقم قانون میں ہے۔
عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ جن جرائم کے تحت گرفتار کیا گیا ہے ان میں قانونی بدنیتی ہے، تمام جرائم پبلک ڈومین میں ہیں، 9 مئی واقعات کے ذمہ داروں کا اوپن پبلک ٹرائل انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت کیا جائے، ایف آئی آرانسداد دہشت گردی ایکٹ مگر ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو رہا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیربھنڈاری کے دلائل مکمل ہونےکے بعد زمان وردگ ایڈووکیٹ نے وکیل عزیربھنڈاری کے دلائل اپنالیے۔
اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان کے دلائل کا آغاز ہوا تو جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ کیا آپ ہمیں تمام دستاویزات کے بارے بتائیں گے؟
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میں گزارشات اور دستاویزات عدالتی جائزے کے لیے رکھوں گا، ایف آئی آر سے بتاؤں گا کہ کہاں پر جرم کی تفصیل درج ہے، فوجی حراست میں لیے جانے اور جرم عائد کرنے کے عمل سے متعلق بتاؤں گا، ایک پورا قانونی عمل ہے جو مکمل کرنے کے بعد گرفتاریاں کی گئیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ چارج کی اس تعریف کو تسلیم نہیں کرتے جو درخواست گزاروں کا موقف ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب بہت سے حقائق درخواست گزاروں کی جانب سے سامنے آئے، اگر آپ ان کے حقائق سے اتفاق نہیں کرتے تو عدالت کو آگاہ کریں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ابھی چارج فریم نہیں ہوا صرف الزامات کی بنیاد کارروائی ہوئی اس کی بات کر رہا ہوں، آرمی ایکٹ کے تحت جو ٹرائل کیا جا رہا ہے انہیں کیا قانونی حقوق حاصل ہیں یہ بتاؤں گا، عزیربھنڈاری نے گرفتاری اور جرم عائد کرنے سے متعلق جو قانونی عمل بتایا اس پر گزارشات پیش کروں گا۔
جسٹس مظاہرنقوی کا کہنا تھا کہ آپ نے بیان دیا کہ ملٹری کورٹس میں ابھی ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میں اپنے بیان پر قائم ہوں، کُل102 افراد فوجی حراست میں ہیں، پہلی بات یہ کہ فوجی حراست میں افراد کو اہلخانہ سے فون پرگفتگو کی اجازت ہے، متعلقہ فرد سے والدین رابطہ کرسکتے ہیں اور ہفتے میں ایک ملاقات کرائی جاتی ہے، جیل میں ان 102 افراد کو پڑھنے کے لیےکتابیں مہیا کی جائیں گی، کھانے پینے کا خاص خیال رکھا جائےگا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا یہ جو 102 افراد کی لسٹ آپ نے دی یہ پبلک ہوگی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست ہےکہ 102 افراد کے نام اور تفصیلات کی لسٹ پبلک نہ کی جائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عید کے دن پبلک کو معلوم ہونا چاہیے کہ کون ملٹری تحویل میں ہے۔
جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ لسٹ پبلک کریں تاکہ شبہات ختم ہوں کہ کون پکڑا گیا کون نہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 24 گھنٹے میں زیر حراست لوگوں کا ان کے اہلخانہ سے رابطہ کرادیا جائےگا، کسی بھی میڈیکل ایمرجنسی کی صورت میں بھی انتظام ہے، لسٹ پبلک کرنے سے متعلق ایک گھنٹے میں ججز کو چیمبرز میں آگاہ کردوں گا۔
اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آتا کہ 102 افراد کے نام پبلک کرنے سے گریزاں کیوں ہیں، آئی سی جے کی رپورٹ میں ملٹری ٹرائل میں سزائے موت کا ذکر بھی تھا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سزائے موت صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے جب کوئی فارن ایجنٹ ملوث ہو، موجودہ کیسز میں کوئی فارن ایجنٹ ملوث ہونےکےکوئی شواہد نہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے استدعا کی کہ ہماری درخواست ہے کہ آئندہ سماعت تک ٹرائل نہ شروع کیا جائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اب عید کے بعد ملیں گے عید کے بعد پہلے ہفتے میں بتائیں گےکہ کیس کی سماعت کب ہوگی۔
وکیل خواجہ احمد حسین نے بھی استدعا کی کہ حکم کردیں کہ اس کیس کے دوران کسی سویلین کا ٹرائل نہ ہو۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملٹری کسٹڈی میں 102 افراد کا ابھی کوئی ٹرائل نہیں ہو رہا،نہیں معلوم کہ اگلے 2 ہفتے تحقیقات کہاں تک پہنچیں گی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ فوری ٹرائل نہیں شروع ہوگا، ہر ایک کا خیال رکھیں۔
عدالت نے درخواست گزاروں کی فوری حکم امتناع کی استدعا مسترد کردی۔ سپریم کورٹ نے سماعت ملتوی کردی۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، سینیئر وکیل اعتزاز احسن، شہری کرامت علی اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں، درخواست گزاروں نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔