کراچی: کیا اردو ادیب نوبل انعام حاصل کرسکتا ہے؟ اس اہم موضوع پر سترہویں عالمی اردو کانفرنس کے آخری دن ایک خصوصی سیشن منعقد ہوا، جس میں اس سوال کے تناظر میں ممتاز تخلیق کار مستنصر حسین تارڑ کی نثر کا جائزہ لیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق، عالمی اردو کانفرنس کے چوتھے روز کئی اہم سیشنز منعقد ہوئے جن میں علم و ادب سے متعلق ممتاز شخصیات نے اظہارِ خیال کیا۔ اسی سلسلے میں ایک سیشن میں اس امکان کا جائزہ لیا گیا کہ کیا اردو قلم کار نوبل انعام حاصل کرسکتے ہیں۔
سیشن میں معروف فکشن نگار اقبال خورشید نے نامور مترجم، مدرس اور محقق ڈاکٹر سفیر اعوان سے گفتگو کی۔
ڈاکٹر سفیر اعوان نمل یونیورسٹی اسلام آباد سے وابستہ ہیں اور تراجم کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ مستنصر حسین تارڑ کے ناول بہاؤ کو انگریزی زبان کا روپ دینے کے ساتھ ان کی نثر پر مشتمل تنقیدی مضامین کو بھی کتابی شکل دے چکے ہیں۔ مزید برآں، وہ مستنصر حسین تارڑ کے ضخیم ناول راکھ کا بھی ترجمہ کررہے ہیں۔
سیشن میں ڈاکٹر سفیر اعوان نے اردو نثر کی قوت، اس کے نوبل انعام کے امکانات اور اس سلسلے میں موجود رکاوٹوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اعداد و شمار کے ساتھ اپنا جامع تجزیہ پیش کیا۔
انہوں نے مستنصر حسین تارڑ کی نثر کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کی تخلیقات کے تراجم میں پیش آنے والے چیلنجز اور اس دوران سامنے آنے والے مشاہدات پر بھی روشنی ڈالی۔ ساتھ ہی انہوں نے یاشر کمال اور تارڑ صاحب کے فکشن کے موازنے پر مبنی دیگر منصوبوں کا حوالہ دیا۔
اس موقع پر مستنصر حسین تارڑ کی چار تازہ کتابوں کی مختصر تقریبِ رونمائی بھی منعقد ہوئی، جن میں ان کی یادداشت مبنی کتاب "باتاں ملاقاتاں”، پنجابی ناول "میں بھناں دلی دے کنگرے” اور دو سفرنامے شامل تھے۔