کراچی: پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پی ڈی ایم کے تمام عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ہمارا آج بھی یہی موقف ہے، کل بھی یہی موقف تھا، استعفے ایٹم بم ہیں، آخری ہتھیار ہونا چاہیے، جس کو استعفیٰ دینا ہے دے دیں لیکن کسی پارٹی کو ڈکٹیٹ نہ کریں۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی سے معافی مانگی جائے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ سیاست عزت اور برابری کی بنیاد پر کی جاتی ہے، شوکاز دینے کی کوئی مثال پاکستان کی تحریکوں میں نہیں ملتی، جب پی ڈی ایم کے ایکشن پلان پر عمل نہیں ہورہا تھا تو کسی کو شوکاز نوٹس نہیں دیا گیا، پنجاب میں سینیٹ کی 5 نشستیں پی ٹی آئی کو دی گئیں تو کوئی نوٹس نہیں دیا گیا، (ن) لیگ نے گلگت بلتستان میں اقلیت میں ہوتے ہوئے قائد حزب اختلاف کا حق چھیننے کی کوشش کی، ہم اپوزیشن کے خلاف اپوزیشن کی سیاست کی مذمت کرتے ہیں، ہمارے دروازے ہر اس جماعت کے لیے کھلے ہیں جو حکومت کے خلاف ہے۔ ہم اے این پی کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں حکومتی معاشی پالیسیوں پر بات کی گئی۔ اگر آپ کو آئی ایم ایف کےساتھ بند کمرے میں فیصلہ کرنا ہے تو بجٹ بھی وہیں منظور کرائیں، حکومت اورآئی ایم ایف ڈیل عوام دشمن ہے، ہم حکومت اور آئی ایم ایف ڈیل پر مطمئن نہیں، ہم نے پہلے بھی ڈیل پر اعتراض کیا اور اب بھی مذمت کرتے ہیں، پاکستان کو پی ٹی آئی اور آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل ختم کرنا چاہیے کیونکہ ڈیل سے پاکستان کے عوام پر بوجھ بڑھ جائے گا۔
بلاول بھٹو زرداری نے اسٹیٹ بینک سے متعلق آرڈیننس کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک کا آرڈیننس ملکی معاشی خودمختاری پر حملہ ہے، ریاستی بینک کو آرڈیننس کے تحت پاکستان کے آئین سے بالاتر کرنا چاہتے ہیں، آرڈیننس سے اسٹیٹ بینک پارلیمان اور عدالتوں کو جواب دہ نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور کشمیر کے عوام 3 نسلوں سے رشتہ میں منسلک ہیں، ہم نے ہمیشہ کشمیر کے عوام کی آواز اٹھائی ہے، ہم نے کبھی کشمیر پر سمجھوتا نہیں کیا اور نہ کریں گے، مودی سرکار کشمیریوں پر ظلم کررہی ہے، 5اگست کو مقبوضہ کشمیر میں تاریخی حملہ کیا گیا، مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کی گئی تو وزیراعظم نے کہا میں کیا کروں، تاریخ میں یاد رکھا جائے گا کہ 5 اگست کے اقدام کے بعد وزیراعظم نے کہا میں کیا کروں، حکومت کی کشمیر پالیسی کنفیوژن اور تضادات پر مبنی ہے، وزیراعظم عمران خان کشمیر کے معاملے میں غلطی پرغلطی کررہے ہیں، وہ کبھی کشمیر کا سفیر تو کبھی کلبھوشن کا وکیل بنتے ہیں، وزیراعظم سمیت حکومت بھارت سے بات کرنے کی کوشش کررہی ہے، کشمیر پالیسی پر پارلیمان کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا، پارلیمان کو نہیں بتایا جاتا کہ بھارت سے تجارت ہوگی یا نہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ صاف شفاف انتخابات کی طرح صاف شفاف مردم شماری بھی ضروری ہے، پیپلز پارٹی 2017 سے اس مردم شماری کے طریق کار کی مخالفت کررہی ہے، ہم کمپرومائز مردم شماری کی مخالفت کرتے آرہے ہیں، 2017 میں مردم شماری پراعتراضات آئے، لیکن ہم الیکشن ملتوی نہیں کرنا چاہتے تھے، تمام جماعتوں نے کہا تھا کہ 5 فیصد ری کاؤنٹ ہوگا، لیکن وہ نہیں ہوا، مردم شماری کا معاملہ مشترکہ پالیمانی اجلاس میں لایا جائے۔