آج نواب زادہ نصر اللہ خان کی 17 ویں برسی منائی جارہی ہے۔ آپ ملکی تاریخ کے سینئر ترین سیاست داں رہے ہیں۔ آپ سیاست میں شرافت اور وضع داری کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ کالے پُھندنے والی سُرخ ترکی ٹوپی اور حقہ اُن کی خاص پہچان اور اُن کے لیے جزولازم تھے۔ جمہوریت کے رواج کے لیے آپ نے بے پناہ جدوجہد کی،آپ کا پورا سیاسی کیریئر اسی سے عبارت ہے، اس وجہ سے آپ کو ”بابائے جمہوریت“ کہا جاتا ہے۔ آپ کی سیاست کا دورانیہ 70 برسوں سے زائد پر محیط ہے۔اتنا طویل عرصہ سیاست کے میدان کارزار میں ملک سے تعلق رکھنے والے کسی اور سیاست دان نے نہیں گزارا۔ اعلیٰ سیاسی اقتدار کے فروغ کے لیے آپ کی کوششیں کسی طور فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ حصول اقتدار آپ کا مطمح نظر کبھی نہیں رہا۔ آپ سیاست کو عبادت تصور کرتے تھے۔
آپ 13 نومبر 1916 کو خان گڑھ، ڈسٹرکٹ مظفر گڑھ، جنوبی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنی سیاست کا آغاز 1933 میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی تشکیل کردہ مجلسِ احرارِ اسلام سے کیا، بعدازاں 1945 میں آپ آل انڈیا مجلس احرار اسلام کے سیکریٹری جنرل بنے، اس جماعت کا مقصد انگریزوں کو برصغیر سے دیس نکالا دینا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد آپ ملک کی بانی جماعت مسلم لیگ سے منسلک ہوگئے۔ 1952 کے عام انتخابات میں پنجاب اسمبلی کی ایک نشست جیتی، 1962 میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں کامیاب ہوئے۔ 1964 میں صدر ایوب کے خلاف انتخاب میں آپ نے فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ 1966 میں عوامی لیگ کے صدر بنے۔ آمر ایوب خان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے اپوزیشن اتحاد ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی کی بھرپور معاونت کی۔
1993 میں پھر قومی اسمبلی کے انتخاب میں سرخرو ہوئے۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بنائے گئے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما آپ کی بے پناہ عزت و احترام کیا کرتے تھے۔ وفات سے کچھ عرصہ پہلے ہی اے آر ڈی کے چیئرمین کی حیثیت سے ملک میں بحالی جمہوریت کے لیے جنرل مشرف حکومت کے خلاف جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے تھے۔ دل کا دورہ پڑنے پر اسلام آباد کے ایک اسپتال میں داخل رہے، مگر زندگی نے وفا نہ کی اور 87 سال کی عمر میں 26 ستمبر 2003 کو انتقال کرگئے۔