وباؤں سے متعلق قدیم تصورات

توفیق حنیف

صدیوں سے وبائیں اوربیماریاں لوگوں میں بڑے پیمانے پر خوف و ہراس اور معاشرتی عدم استحکام پیدا کرنے کا باعث بنیں۔

جب ایک خطے کے عوام کو کسی دوسرے علاقے میں پھیلنے والی بیماری کا علم ہوتا تو وہ اس کے لیے پیشگی کوئی اقدامات نہ کرتے، وہ سمجھتے کہ یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ انہیں یہ لگتا کہ جو دوسروں کے ساتھ ہوا وہ ان کے ساتھ نہیں ہوسکتا ۔چونکہ اس وقت جراثیم کے نظریے کا کوئی تصور نہیں تھا تو کسی کو ان کے پھیلنے کی وجہ سمجھ نہیں آتی تھی اور اسی وجہ سے وہ مافوق الفطرت اسباب اوردیوتاؤں کے قہر سے اسے منسوب کرتے تھے ۔ پرانے وقتوں میں لوگوں کا یہ یقین تھا کہ دیوتا اور روحیں بیماریوں کو ان لوگوں پر مسلط کرتے ہیں جو ان کے غضب کے حقدار ہوتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بنی نوع انسان کو درپیش مشکلات و آفات کو سائنسی توجیہات کے ساتھ ساتھ ہمیشہ سے مذہبی نقطہ نگاہ سے بھی دیکھا جاتارہا ہے، دنیا کے تمام ہی مذاہب میں نافرمانی اور سرکشی کرنے والوں کو عذاب خدا سے ڈرایا گیا ہے۔کبھی یہ عذاب فطرت کی تباہ کاریوں کی صورت میں سامنے آتا ہے تو کبھی جسمانی تکالیف و بیماریوں کی صورت میں۔ عذاب کا تصور صرف موجودہ مذاہب میں ہی نہیں بلکہ قدیم مذہب میں بھی ملتا ہے ۔قدیم ترین تاریخ سومیر (عراق یا میسوپوٹیمیا) کی ہے جہاں سیلاب عظیم کی صورت میں دیوتاؤں کی جانب سے انسانوں کو ان کی نافرمانی کی سزاد ی گئی، جس میں ایک دیوتاؤں کے فرمانبردار نیک بندے اتناپشتم کے علاوہ سب ہلاک ہوگئے۔
قدیم یونانی قصوں میں پنڈورا کے صندوق کا قصہ ملتا ہے جو افلاس ، غربت اور بیماریوں سے بھرا ہوا تھا۔ پنڈورا نے زیوس دیوتا کی نافرمانی کرنے پر اسے انسانوں پر الٹ دیا تھا۔ نتیجے میں تمام انسان جان لیوا بیماریوں ، دکھوں اور غموں کا شکار ہوگئے ۔ یہ عذاب اس وقت تک نہ ٹلا جب تک انسانوں کے نمائندہ پرومیتھیئیس نے زیوس دیوتا سے معافی نہیں مانگ لی۔
ہندو مذہب میں بھی انسانوں کو لاحق بیماریوں کو دیوی دیوتاؤں کی ناراضگی سے جوڑا جاتا ہے۔خاص کر چیچک کی بیماری کو کالی ماتا کا قہر و غضب کہا جاتا ہے۔ گھر میں کسی کو چیچک نکلنے پر جسے ماتا کا آنا کہا جاتا ہے، استغفاری بھجن پڑھے جاتے ہیں اور دیوی کی خوشنودی کے لیے چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں۔
یہودیت ، عیسائیت اور اسلام میں بھی انسانوں کی سرکشی اور نافرمانی پر عذاب نازل ہونے کا ذکر بارہا بیان کیا گیا ہے، جیسے طوفان نوح، قوم لوط پر آسمان سے پتھروں کے برسنے کا عذاب ، قوم عاد و ثمود پر آندھی اور تیز ہواؤں کا عذاب، مصر پر طاعون کا عذاب، پانی کے سرخ اور زہر آلود ہونے کا عذاب، ٹڈیوں کے حملے کا عذاب، فرعون مصر کو دریا میں غرق کرنے کا عذاب اور خانہ کعبہ پر حملہ کرنے والے بادشاہ ابراہہ اور اس کی فوج پر ابابیل کا کنکریاں پھینک کر بھس بنادینے کا عذاب وغیرہ۔ راسخ العقیدہ افراد اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عذاب انسانوں کے لیے پیغام ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے وہ نصیحت حاصل کریں اور خدا کے احکام کو مستردکرکے سرکشی اور بغاوت کی راہ سے دور رہیں۔
اس کے علاوہ لوگوں کے اس طرح ناقابل توجیح طور پر مرنے پرکئی قدیم تہذیبوں میں لوگ اسے دیوی دیوتاؤں کی ناراضگی اور انتقام سمجھتے تھے۔ قدیم یونانی داستانیں جو اکثر اصل واقعات کی تمثیل میں بیان کیے جاتے ہیں۔مشہور یونانی شاعر ہومرنے لکھا کہ دیوتا اپولو نے ٹرائے کی اس کے حریف سپارٹاکے ساتھ جنگ میں یونانی فوج پر اپنے تیروں کے ذریعے طاعون کی بارش کی۔دیوتا اپالو کا تیر بعد میں بیماریوں اور وباؤں کی علامت بن گیا۔

Concept of pandemic in the far pastMyths about pandemicThe false concepts about virus in antique times