ملک کے معروف ذرائع ابلاغ کے اداروں سے وابستہ صحافیوں نے جامعۃ الرشید اور الغزالی یونیورسٹی کا دورہ کیا۔ تعلیمی رپورٹرز پر مشتمل صحافیوں کے اس وفدنے جامعۃ الرشید اور الغزالی یونیورسٹی کے مختلف تعلیمی شعبہ جات کو دیکھا۔
وفد کی آمد پر سرپرست اعلیٰ جامعۃ الرشید اور چانسلر الغزالی یونیورسٹی مفتی عبدالرحیم نے استقبال کیا۔ اس کے بعد صحافیوں کو دارالافتاء جامعۃ الرشید، مجمع العلوم الاسلامیہ کے مرکزی دفتر، جے ٹی آر میڈیا ہاؤس، شعبہ فقہ المعاملات الاسلامیہ، کلیۃ الشریعہ، فقہ الحلال، المنائی ایسوسی ایشن سمیت جامعۃ الرشید کے مختلف شعبہ جات کا اسٹڈی ٹور کروایا گیا۔ اظہر شاہ اس دوران بریف کرتے رہے۔
وفد کو جامعۃ الرشید کے نظام تعلیم کے تعارف پر مشتمل ویڈیوڈاکومنٹریز بھی دکھائی گئیں۔ اس کے بعد سرپرست اعلیٰ جامعۃ الرشید اور الغزالی یونیورسٹی کے چانسلر مفتی عبدالرحیم صاحب وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ریاست جن خطرات سے دوچار ہے، ان کا حل دینی و عصری تعلیم کا امتزاج ہے۔ اسلام میں دین اور دُنیا کی تفریق نہیں ہے۔ جامعۃ الرشید نے دینی اور عصری تعلیم میں موجود خلا کو پُر کیا ہے، دینی تعلیم کے ساتھ 30 فیصد وقت عصری تعلیم کو دیا گیا ہے جب کہ عصری تعلیم کے ساتھ 30 فیصد دینی تعلیم کو بھی شامل کیا ہے، تاکہ دونوں تعلیمات میں پائی جانے والی خامیوں کو کم کیا جاسکے۔ جب تک ہمارا تعلیمی نظام درست نہیں ہوگا تب تک ملک کو درپیش چیلنجز کا حل نہیں نکل سکتا۔ پہلی بار مدارس کو وزارت تعلیم کے ماتحت کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے مدارس کو رجسٹریشن میں آسانی سمیت بے شمار فائدے حاصل ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک 18 ہزار سے زائد مدارس وزارت تعلیم کے تحت رجسٹرڈ ہوچکے ہیں، جن میں 22 لاکھ 86 ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ اس کے ساتھ وزارت تعلیم کی طرف سے ایک لاکھ سے زائد طلبہ کو عصری تعلیم کی کتابیں بھی فراہم کی جاچکی ہیں۔
غیر ملکی طلبہ کے لیے دینی تعلیم کے ویزے کا حصول بھی آسان ہوچکا ہے، اب تک 16 سو سے زائد غیر ملکی طلبہ دینی تعلیم کے حصول کے لیے پاکستان آچکے ہیں۔ مدارس کے طلبہ کو پیشہ ورانہ مہارت اور اسکلز سکھانے کے کورسز بھی شروع کیے گئے ہیں اور وزارت تعلیم کی طرف سے اب تک 2503 طلبہ وزیراعظم یوتھ اسکلز ٹریننگ بھی حاصل کرچکے ہیں، ان اسکلز کو سیکھ کر عملی طور پر شروع کرنے کے لیے طلبہ کو ساڑھے سات کروڑ روپے بھی دیے گئے ہیں۔ اس لیے موجودہ نظام کو ختم کرکے 18 ہزار مدارس کو احتجاج اور سڑکوں پر آنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جامعۃ الرشید نے اپنے نصاب میں بے شمار اصلاحات کی ہیں۔ درس نظامی کے ساتھ چار عالمی زبانیں بھی سکھائی جاتی ہیں۔ عربی، انگلش، ترکش اور چائنیز۔ طلبہ کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کورسز بھی کروائے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ الغزالی یونیورسٹی کے نظام تعلیم کی بنیاد تربیت پر قائم ہے۔ تربیت کا دائرہ کار یہ دس موضوعات ہیں: وطن سے محبت۔ ملک کے نقصان کو ذاتی نقصان سمجھنا۔ اجتماعیت کو برقرار رکھنا اور سیاسی، مذہبی اختلافات کو محدود کرنا۔ قومی سطح پر نظم و ضبط اور ڈسپلن کا اہتمام کرنا۔ ریاست کے حقوق ادا کرنا۔ ریاست عوام کے حقوق ادا کرے۔ دوسروں کی خدمت کرنا اور اپنا حق چھوڑنے کے لیے تیار رہنا۔ محنت اور جدوجہد کرنا۔ قوم کو اسکل فل اور ہنرمند بنانا۔ ذاتی اور قومی سطح پر خودکفالتی نظام اختیار کرنا، تاکہ ہم دوسروں کے محتاج نہ رہیں۔ انہوں نے میڈیا پرسنز سے یہ بھی کہا کہ ہمیں بریکنگ نیوز کی دوڑ میں ملکی مفادات کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ ریاستی ادارے اگر نہیں بچیں گے تو ملک خطرے میں پڑ جائے گا۔
الغزالی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذیشان احمد نے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ الغزالی یونیورسٹی دینی و عصری تعلیم کے درمیان فاصلے ختم کرے گی۔ علمائے کرام کے علوم کو مین اسٹریم کرے گی۔ انہوں نے بتایا الغزالی یونیورسٹی میں بی ایس اسلامک اسٹڈیز، بی ایس ایجوکیشن، بی ایس اسلامک فنانس شروع ہوچکا ہے جب کہ ایم ایس اسلامک اسٹڈیز میں حدیث اور کلیۃ الشریعۃ کی کلاسز بھی جاری ہیں۔ ایم ایس اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس اور ویک اینڈ ایم ایس اسلامک اسٹڈیز برائے علمائے کرام بھی جاری ہیں، جن میں سیکڑوں طلبہ انرول ہوچکے ہیں۔ اس کے ساتھ الغزالی یونیورسٹی کا سٹی کیمپس بھی ایکٹو ہوچکا ہے، جی یو ٹیک کے نام سے کورنگی میں قائم اس کیمپس میں بی بی اے، بی ایس کمپیوٹر سائنس، ایم ایس اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس برائے پروفیشنلز شروع ہوچکے ہیں۔ جنرل سیکریٹری مجمع العلوم الاسلامیہ مفتی محمد نے میڈیا سے گفتگو کی، مجمع العلوم الاسلامیہ کی ترجمانی کرتے ہوئے مولانا عثمان یوسف نے تفصیلی پریزنٹیشن بھی پیش کی۔
صحافیوں کے اس وفد میں پاکستان کے نمایاں ٹی وی چینلز، اخبارات اور ویب چینلز کے نمائندوں نے شرکت کی۔
تقریب کے اختتام پر صحافیوں نے سوالات بھی پوچھے، وائس آف سندھ کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر عمیر ہارون کی جانب سے کیے گئے سوال کو انتظامیہ کی جانب سے سراہا گیا اور اُن کے کردار کی تعریف بھی کی گئی۔