ڈیگو:جادوئی میدانوں کا فسوں گر رخصت ہوا!

جب تک فٹ بال کا کھیل زندہ ہے، میراڈونا کا نام زندہ رہے گا

اقبال خورشید

سن 86 کے دو مناظر میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔یوں، جیسے کل ہی مجھ پر بیتے ہوں۔
ایک منظر قصبہ علی گڑھ کے فسادات کا ہے۔ اوردوسرا؛ ڈیگو کی دمکتی مسکراہٹ کا۔
پہلے منظرمیں سردی سے ٹھٹھرتی، سہمی ہوئی عورتیں اپنے بچوں کو لیے ایک کمرے میں دبکی بیٹھی ہیں،اور باہر کھمبے بج رہے ہیں۔اور دوسرے میں ایک مطمئن مسرور شخص، ایک طلسماتی کھلاڑی…ورلڈ کپ کی سنہری ٹرافی تھامے مسکرا رہا ہے۔
یہ دونوں مناظر سن 86 کی دین تھے۔ ایک تلخ تھا، دوسرا شیریں۔ اور دونوں ہی کئی برس تک میرے ساتھ رہنے والے تھے۔
آنے والے برسوں میں علی گڑھ فسادات کا سلگتا منظر کراچی میں اٹھنے والی لسانی فسادات کی ہرلہر کے ساتھ…میری یادداشت پر دستک دیتا۔
اور دوسرا… میرا ڈونا کی ہر جیت، ہر شکست کے ساتھ، اس سے جڑے ہر تنازعے کے ساتھ…میرے دل میں، کسی کھوئی ہوئی یاد کی طرح چلا آتا۔
میرا ڈونا…وہ جس کے پیروں کی رگڑ سے فتح کا جن برآمد ہوتا تھا،جو ایک فسوں گر تھا، جو تنازعات اور طلسم کے مابین سانس لیتا تھا… بالآخر چلا گیا۔
گو یہ خبر متوقع تھی۔ یہ ویسی خبر تو نہیں تھی، جیسے مائیکل جیکسن کی موت کی خبر تھی۔ تلخ، ترش، اور اچانک۔ بے پناہ درد لیے ہوئے۔ میراڈونا کی موت، ایک نسبتاً متوقع موت تھی۔ وہ 60سال جی چکا تھا، نشے کی لت، صحت کے مسائل، اور ایک بے ربط زندگی؛ وہ کسی بھی وقت رخصت ہوسکتا تھا۔وہ اپنا کردار ادا کرکے میدان سے باہر جاچکا تھا۔
البتہ جب وہ رخصت ہوا، تو دنیائے فٹ بال کا دامن آنسوؤں سے تر ہوگیا۔
اس کی موت کی خبر پر شہر روتے تھے… مداحوں کے سر پر گھنے سیاہ بادل تن گئے… اور دریاؤں میں بے انت درد بہنے لگا۔
کہتے ہیں، فٹ بال ایک ایسی عالمی زبان ہے، جواظہار کی محتاج نہیں۔ جو ایک بھی لفظ ادا کیے بغیر ابلاغ کی مکمل قابلیت رکھتی ہے۔ اور اگر یہ سچ ہے، تو ڈیگومیراڈونا اس کا زبان کا سب سے بڑے مقرر تھا۔مقرر، جو مجمعے پر سحر طاری کردے، سب ہمہ تن گوش ہو کر اسے سنیں، اور سنتے چلے جائیں۔ اور جب سٹی بجے، کھیل ختم ہونے کا اعلان ہو، تو اُنھیں لگے، جیسے اُن کے اندر بھی کچھ ختم ہوگیا…جیسے وہ نیند سے جاگ گئے۔ خواب تمام ہوا۔ اب حقیقت کی تلخ دنیا روبرو ہے۔
ورلڈ کپ ہر چار برس بعد ہوتا ہے،مگر میرے لیے اب تک تین ہی ورلڈ کپ ہوئے ہیں۔اور ان میں پہلا1986کا فیفا ورلڈ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب میں کم سن تھا، موت اور زندگی کی تصور سے لاعلم۔اور یہ خیال کرتا تھا کہ دنیا میں صرف ایک فٹ بالر ہے۔ 1990آتے آتے دھند چھٹنے لگی۔یہی وہ برس تھا، جب میرے ذہن نے کچھ کھو دینے کا اولین تجربہ کیا۔1986کے مانند ایک بار پھر،ورلڈ کپ فائنل میں ارجنٹینا اور جرمنی آمنے سامنے تھے۔ شاید ایسا پہلی بار ہواتھا کہ دو ٹیموں نے لگاتارورلڈ کپ فائنل کھیلا ہو۔
وہ ایک ظالمانہ اور پرتشدد فائنل تھا۔یا شاید اپنی کمی سنی کے باعث مجھے ایسا لگا ہو، مگر ماہرین بھی اُسے ایک تلخ مقابلہ قرار دیتے ہیں۔ پے درپے فاؤل،چوٹیں، جھگڑے۔ ارجنٹینا کے دو کھلاڑیوں کو باہر کا راستہ دکھایا گیا۔ایک متنازعی پینالٹی۔ جرمنی نے گول داغ دیا۔ کھیل تمام ہوا۔ میرا ڈونا اپنی ٹیم کو ورلڈ کپ نہ جتوا سکا۔
ایک اداسی سی اداسی تھی۔میں نے ارجنٹینا کے باسیوں کے ساتھ گریہ کیا۔اس غم نے عشق کو گہرائی اور وسعت دی۔ اب میرا عشق ڈیگو سے نکل کر ارجنٹینا تک پھیل گیا تھا۔ آنے والے ہر اہم مقابلے میں (اور غیراہم مقابلوں میں بھی) سفید اور ہلکی نیلی پٹیوں والی ارجنٹینا کی جرسی میرا عشق ٹھہری۔ صرف ڈیگو کی وجہ سے میں نے Gabriel Batistuta سے(جو اپنے عہد کاایک عظیم فٹ بالر تھا، جس کے ارجنٹینا کے لیے بنائے جانے والے ریکارڈز کو توڑنے کے لیے میسی کو میدان میں آنا پڑا، جو دو ورلڈ کپ مقابلوں میں ہیٹ ٹرک کرنے والا تنہا سورما ہے) محبت کی۔ یہ ڈیگو ہی تھا، جس کی وجہ سے ہم نےClaudio Caniggia اور Riquelmeکو تجسس اور توجہ سے دیکھا۔اور پھرمیراڈونا ہی کی وجہ سے لائنل میسی سے وہ محبت کی، جس کا وہ حق دار تھا۔
یاد رہے؛ یہ میرا ڈونا ہی تھا، جس نے اوائل میں ہر پلیٹ فورم پر میسی کی صلاحیتو ں کا چرچا کیا، اُسے سراہا، اور دنیا کو یہ خبر دی کہ ارجنٹینا میں ایک اور میراڈونا کا جنم ہواہے۔، ایک اورفسوں گر، جس کے جوتوں کی رگڑ سے فتح کا جن برآمد ہوگا۔
میرا ڈونا اور میسی میں حیران کن مماثلت تھی۔ چھوٹا قد، گٹھا ہوا جسم،بلا کی پھرتی، انفرادی مظاہرے کی للک، Dribbling کی حسین صلاحیت،”ہیڈ“کو بہ طور ہتھیار استعمال نہ کرنے کے باوجود نمایاں ترین کھلاڑی بن کر ابھرنا۔ البتہ ایک واضح فرق ہے۔ میسی اپنی ٹیم کو ورلڈ کپ نہیں جتوا سکا۔ گو 2014کے ورلڈ کپ فائنل میں وہ اُس کے بے حد قریب پہنچ گیا تھا، مگر منزل سے کچھ دور قسمت نے جرمنی کے حق میں فیصلہ لکھ دیا۔اور یوں میسی عظمت کی دوڑ میں میراڈونا سے بہت پیچھے رہ گیا۔
اچھا،میسی اور میراڈونا میں کچھ اختلافات بھی رہے۔یہی معاملہ پیلے کا بھی رہا،بالخصوص صدی کے عظیم ترین کھلاڑی کے مقابلے میں۔ مگر جب ڈیگو رخصت ہوا، توپیلے اور میسی، دونوں نے اس پر عقیدت اور محبت کے پھو ل نچھار کیے۔ دنیا کے دیگر عظیم فٹ بالرز نے بھی ایسا ہی کیا۔ ڈیگو میراڈونا کو ویسا ہی خراج تحسین پیش کیا گیا، جیسا اس کا حق تھا۔جنازے میں چاہنے والے امڈ آئے۔ وہ غم سے نڈھال تھے۔ اور اسے یاد کرکے آنسو بہاتے تھے۔
بے شک ڈیگو جسمانی طور پر چلا گیا، مگر اپنی یادیں چھوڑ گیا۔ہمارے لیے وہ حسین لمحات چھوڑ گیا، جنھوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والوں کو فٹ بال کے کھیل کی سمت متوجہ کیا تھا۔ وہ اپنی شرارتیں اور لطیفوں کے ساتھ، اپنے تنازعات کے ساتھ اور اپنی بے پناہ صلاحیت کے ساتھ، ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ایک مداح نے کیا خوب کہا: وہ مر گیا، تاکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جی سکے۔
یہ سچ ہی تو ہے، جب تک فٹ بال زندہ ہے، میراڈونا زندہ رہے گا۔اس کی زندگی، فٹ بال کی زندگی سے جڑی ہے، فٹ بال جو ایک عالمی زبان ہے۔
تو سن 86 کے دو مناظر میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔یوں، جیسے کل ہی مجھ پر بیتے ہوں۔
ایک منظر قصبہ علی گڑھ فسادات کا ہے۔ اوردوسرا ڈیگو کی دمکتی مسکراہٹ کا۔

ارجنٹیناسے تعلق رکھنے والے دُنیا کے عظیم فٹ بالر، ڈیاگو ارمانڈو میرا ڈونا 30 اکتوبر 1960 کو پیدا ہوئے۔ ان کا شمار فٹ بال کی تاریخ کے متنازع ترین کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ان کے ریکارڈز بے پناہ اور ناقابل بیان ہیں۔
انہوں نے فٹ بال کلبس بوکا جونیئرز، ایف سی بارسلونا اور ایس ایس سی ناپولی کی نمائندگی کی اورمتعدداعزازات حاصل کیے۔ ارجنٹیناکی جانب سے 91 عالمی مقابلوں میں جلوہ گرہوئے۔ 34 گول داغے۔کئی میچزمیں اہم گول ان ہی کے مرہون منت تھے۔ 1982، 1986، 1990 اور 1994 کے فٹ بال کے عالمی کپس میں انھوں نے شرکت کی۔ 1986 میں ارجنٹیناان کی زیر قیادت فٹ بال کا عالمی چیمپئن بنا۔ انہیں ٹورنامنٹ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا تھا۔
1986 کے کوارٹر فائنل میں انگلینڈ کے خلاف ان کے کیے گئے دوسرے گول کو فیفا کی جانب سے کیے گئے آن لائن پول میں صدی کا بہترین گول قرار دیا گیا۔ 1990 کے عالمی کپ میں ٹخنے کے زخم نے ان کی کارکردگی کو متاثر کیا، اس کے باوجود ارجنٹینا فائنل تک پہنچا، جس میں مغربی جرمنی نے کامیابی حاصل کی۔ 1991ء میں ڈوپنگ ٹیسٹ میں ناکام ہونے کے بعد انہیں 15 ماہ کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا، 1994 کے عالمی کپ کے دوران بھی منشیات کے استعمال کے باعث پابندی کا شکار بنے۔
صحافیوں پر فائرنگ اور خاتون کو ہراساں کرنے کا الزام بھی لگا۔ 30 اکتوبر 1997 کو فٹ بال سے ریٹائر ہوئے۔ 2000ء میں ان کی سوانح حیات ”میں ڈیاگو ہوں“ (Yo Soy El Diego) شایع ہوئی، جو ارجنٹائن میں فروخت ہونے والی بہترین کتاب بنی۔ فیفا کے ”صدی کے بہترین کھلاڑی“ کے لیے کرائے گئے پول میں آپ 53.6 فیصد ووٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہے۔ برازیل کے
اعتراضات کے بعد فیفا نے فٹ بال ماہرین کی ایک کمیٹی مقرر کردی، جس نے پیلے کو صدی کا بہترین کھلاڑی قرار دیا۔ 2006 میں اپنی قومی ٹیم کو بہ حیثیت کوچ عالمی کپ جتوانے میں ناکام رہے۔ 25 نومبر 2020ء کو، 60 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔