محمد راحیل وارثی
آج عظیم گلوکارہ ملکہ پکھراج کی 17ویں برسی منائی جارہی ہے۔ 4 فروری 2004 کو لاہور میں آپ کا انتقال ہوا، شاہ جمال قبرستان (لاہور) میں آپ کی تدفین ہوئی تھی۔آپ مقبول ترین غزل اور لوک گلوکارہ تھیں۔ آپ کے گائے ہوئے نغمے آج بھی مقبولیت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
ابوالاثر حفیظ جالندھری کی لکھی نظم ”ابھی تو میں جوان ہوں“ جب آپ نے گائی تو اُس نے مقبولیت کے تمام ریکارڈز توڑ دیے، اِس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُس وقت برصغیر کا ہر فرد اس نظم کا ابتدائی مصرع گنگناتا دِکھائی دیتا تھا۔ آپ کے دیگر مشہور گیتوں میں ”لو پھر بسنت آئی“، ”قلی قطب پیا باج پیالہ پیا جائے نا“ اور فیضؔ کی لکھی غزل ”میرے قاتل میرے دلدار میرے پاس رہو“ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی آپ نے اپنے پورے کیریئر میں بے شمار گیت گائے۔
ملکہ پکھراج ہمیرپور سدھر (جموں) میں 1912 کو ایک موسیقار گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ آپ نے موسیقی کی تربیت اُستاد علی بخش قصوری سے حاصل کی، جو لیجنڈ گلوکار اُستاد بڑے غلام علی خاں کے والد تھے۔ 1940 کی دہائی تک آپ غیر منقسم ہندوستان کی مشہور و معروف گلوکارہ کی حیثیت سے اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوچکی تھیں۔ تقسیم کے بعد آپ پاکستان آگئیں۔ یہاں پر آپ کی مقبولیت کو ریڈیو پرفارمنس کے ذریعے مزید چار چاند لگ گئے، آپ نے ریڈیو پاکستان لاہور میں زیادہ تر موسیقار کالے خاں کی دھنوں پر مقبول گانے گائے، آپ کی آواز پہاڑی لوک گیتوں کے لیے نہایت موزوں تھی۔ 1980 میں آپ نے صدر پاکستان سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ وصول کیا۔ آپ کی شادی شبیر حُسین سے ہوئی۔ آپ کی چھ اولادیں ہیں جن میں ایک معروف گلوکارہ طاہرہ سید بھی ہیں۔ بیٹی کے ساتھ بھی آپ نے ٹی وی پر کئی بار پرفارم کیا۔