بھارت میں سکھوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور ناانصافی سے کون آگاہ نہیں ہے؟ کسان تحریک کو غداری کا رنگ دینے کا سلسلہ تو شروع سے ہی بھارت میں جاری تھا لیکن ابھی ایک نئی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک ایسے ریکٹ کو بے نقاب کیا گیا ہے جس میں بعض اکاوُنٹس سکھ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور نفرت انگیز نظریات کا پرچار کرتے دکھائے دیتے ہیں۔ ان نیٹ ورک کے پیچھے کون لوگ ہیں یہ تو ابھی تک سامنے نہیں آسکا ہے لیکن 80 کے قریب اکاوُنٹس سے خود کو سکھ بتا کر خالصتان تحریک کا پرچار کرنے والے یہ لوگ بھارت میں سکھوں کو غدار قرار دینا چاہتے ہیں۔
جب سے سکھوں نے کسانوں کی تحریک چلائی اور پوری دنیا کے سکھوں نے اس تحریک کی حمایت کی تو بھارتی سرکار آگ بگولہ ہوگئی۔ اس احتجاج کے ابتدائی دنوں میں ہی مودی سرکار کے وزیروں نے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ اس تحریک کو خالصتانی چلا رہے ہیں۔ اب جبکہ یہ ریکٹ سامنے آیا ہے تو اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ سب کس کی ایما پر کیا جا رہا ہے، اس کے پیچھے کس کے ناپاک ارادے پوشیدہ ہیں۔ بھارتی سرکار ان سکھوں کو ملک دشمن ثابت کر کے ہندوتوا کے نعرے کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ دنیا کے سامنے بھارت کا جھوٹا سیکولر چہرہ بے نقاب ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے مسلمان، پھر سکھ، پھر عیسائیوں کی جبری مذہب تبدیلی اور اس کے بعد نچلی ذات کے ہندووُں کے ساتھ نارواں سلوک ہندوستانی حکمرانوں کے مذموم عزائم کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔
بدھ کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اس نیٹ ورک کے 80 اکاؤنٹس کی نشان دہی کی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر ان پروفائلز کو جعلی ہونے کی بنا پر اب معطل کر دیا گیا ہے۔ اس نیٹ ورک میں ٹوئٹر، فیس بک اور انسٹاگرام پر اکاؤنٹس کی مدد سے ہندو قوم پرست نظریات اور انڈین حکومت کی حمایت میں خیالات کو فروغ دیا جا رہا تھا۔ رپورٹ کے مصنف بنجمن سٹریک کا خیال ہے کہ بظاہر اس نیٹ ورک کا مقصد ’سکھوں کی آزادی، انسانی حقوق اور اقدار جیسے اہم مسائل پر رائے تبدیل کرنا تھا۔‘
یہ نیٹ ورک، جسے ’ساک پپٹ‘ کہا جاتا ہے، ان جعلی اکاؤنٹس پر مشتمل ہوتا ہے جنھیں اصل لوگ کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں اور وہ خود کو انفرادی حیثیت میں کام کرنے والے آزاد افراد ظاہر کرتے ہیں، نہ کہ خودکار ’باٹس‘۔ رپورٹ کے مطابق جعلی اکاؤنٹس میں سکھوں کے نام استعمال کیے گئے اور دعویٰ کیا گیا کہ وہ ’اصل سکھ‘ ہیں۔ وہ مختلف سیاسی نظریات کے فروغ یا انھیں ناقابل اعتماد بنانے کے لیے ’ریئل سکھ‘ اور ’فیک سکھ‘ کے ہیش ٹیگز استعمال کرتے تھے۔
ان فیک اکاوُنٹس کو باقائدہ منظم طریقے سے آپریٹ کیا جا رہا تھا۔ ان اکاؤنٹس پر ایک جیسے نام، تصاویر (پروفائل اور کوور فوٹوز) اور پوسٹیں شائع کی جا رہی تھیں۔ اس نیٹ ورک کو چلانے کا مقصد بھارت میں سکھوں کے خلاف نفرت کو ابھاڑنا تھا اور مسلمانوں کی طرح سکھوں کو بھی بھارت کا غدار قرار دینے کی سازش رچی جارہی تھی بلکہ تھی نہیں ہے کیوں کہ ایک سازش تو بے نقاب ہوگئی لیکن ناجانے یہ لوگ اس طرح کے کتنے ریکٹس چلا رہے ہوں گے جن کی ابھی تک نشان دہی نہیں ہو سکی ہے۔ سب جانتے ہیں بھارت کا الیکٹرانک میڈیا مودی سرکار کے زیر اثر ہے۔ جو حکومت کہلوانا چاہے، جو پروپیگنڈا کرنا چاہے میڈیا وہی بولتا اور دکھاتا ہے۔ اس انفارمیشن وار فئیر کی جنگ میں عام لوگ یہی تصور کرتے ہیں کہ جو میڈیا بتلا رہا ہے وہ من و عن سچ ہے۔ عام آدمی اس دھوکے میں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ سمجھ بیٹھتا ہے۔ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ بھارتی میڈیا نے مسلمانوں کے خلاف کس منظم طریقے سے کیمپین کی اور انہیں بھارت دشمن بول بول کر عام ہندوستانی شہری کے دماغ میں یہ بات ڈال دی کہ وہاں کا مسلمان واقعی ملک دشمن اور غدار ہے۔
سکھوں کے ساتھ بھی اب یہی رویہ اپنایا جا رہا ہے۔ آہستہ آہستہ عوام کے ذہنوں میں ان کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے۔ عوام کو بتایا جا رہا ہے کہ سکھ تو بھارت سے کبھی وفادار ہی نہیں تھے، یہ تو اس ملک کو توڑ کر اپنا ملک خالصتان بنانا چاہتے ہیں۔ آر ایس ایس آئیدیولوجی پر چلنے والی یہ بی جے پی کی یہ حکومت ہندووُں کے علاوہ بھارت میں تمام مذاہب کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ وہ کٹر ہندوتوا راج کو ہی اصل بھارت جانتے ہیں اور باقی مذاہب کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ صورت حال اس قدر سادہ نہیں آنے والے وقتوں میں بھارت کی اقلیتوں میں احساس محرومی بڑھتا جائے گا اور زیادتیوں و ناانصافیوں کو کوئی کب تک برداشت کر سکتا ہے؟ بھارتی سرکار اپنے ہاتھوں سے بھارت کی اس سیکولر امیج کو دفن کر رہی ہے جس پر بھارت بہت ناز کرتا ہے۔ وقت نکل جانے کے بعد پھر ان کے ہاتھ میں بھی کچھ نہیں رہے گا۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ نفرت کا انجام ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے۔