"پاکستان بن گیا” کی آواز سنتے ہی ایک نوجوان کشمیری لڑکی نور بیگم سجدے میں گر گئی۔ سر پر بندھا رومال اور شال شکر گزاری کے آنسوؤں سے تر ہو گئے۔ .جس عمر میں لڑکیاں اپنے ہاتھوں میں مہندی کے خواب دیکھتی ہیں، اس عمر میں اس کے ہاتھ اقبال کے خواب کے لیے بلند ہوتےتھے۔
سرپنچ موسیٰ کی اکلوتی بیٹی کچھ روز پہلے ہی سرپنچ نظام دین کی بہو بنی تھی۔ ناز و نعم اور سیاسی خاندان میں پلی یہ لڑکی اپنی باتوں سے بُدّھاں (عقلمند)مشہور تھی۔ آج بدھاں کی دعائیں رنگ لے آئی تھیں، لیکن قسمت کے کھیل میں امتحانوں کی پٹاری بھی کھل جاتی ہے۔ سسرال والوں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ حالات کشیدہ تھے، ہر طرف قتل وغارت کا بازار گرم تھا۔ تجویز آئی کہ خواتین ابھی یہیں ٹھہریں گی اور صرف مرد حضرات یہاں سے نکلیں گے۔ بہت سی خواتیں رک گئیں۔ جب نور بیگم کے کان میں یہ بات آئی تو اسے یوں لگا جیسے کسی بچے کا خوبصورت کھلونا چھِن گیا ہو۔ جو وطن اس کی دعاؤں سے بنا تھا، اس دیس میں جانے سے روکا جا رہا تھا۔ اس کے سسر نے اس کے آنسو دیکھ لیے، اس کی تڑپ دیکھ لی۔ سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ ناز و نعم سے پلی لڑکی مشکلات کے بڑے بڑے پہاڑ کیسے عبور کرے گی؟ کیسے لاشیں دیکھے گی؟ بھوکے پیٹ کیسے سفر کر ے گی؟ مگر اسے تو اپنے پاکستان کی مٹی پر سجدہ کرنا تھا، اس کی خوشبو سے معطر ہونا تھا، اسلامی ملک کی فضا میں سانس لینا تھا۔ بالآخر مان گئے۔ ساتھ ایک اور خاتون کو لے لیا جو اس کی سہیلی بھی تھی اور رشتے میں جیٹھانی لگتی تھی۔ وہ قافلے کا حصہ بن گئی۔
راستے میں دریائے چناب پڑتا ہے۔ نظام دین نے اپنے دس بیٹوں کو پٹ سن ڈھونڈنے پر لگا دیا۔ ان میں سراج، فیروز اور محمد دین بڑے تھے۔ خدا کی مدد مل گئی، کہیں سے پٹ سن دبی ہوئی دکھائی دی۔ جلدی سے موٹے موٹے اور مضبوط رسے بنا ئے گیے۔ اس کے بعد سراج نے ایک رسہ پکڑ کر دریا میں چھلانگ لگا دی اور خونی دریا کا سینہ چیرتا ہوا دوسرے کنارے پر پہنچ گیا۔ رسی کو مضبوطی سے باندھا فضل اور فیروز کو ساتھ ملایا اور راتوں رات رسیوں کا ایک پل بنا دیا۔ کچھ لکڑیاں اکٹھی کیں اور ایک ڈولی کی شکل کا بکس (کرولی) بنا دیا، جس میں بیٹھ کر سب کو ایک ایک کر کے پار پہنچا دیا گیا۔
اللہ نے پہلے امتحان میں کامیابی دی، جلد ہی دوسرے امتحان یعنی بھوک نے آلیا۔ فیصلہ ہوا کہ ایک خاتون اور ایک اس کا شوہر امام دین نزدیکی گاؤں میں جائیں گے، شائد کوئی ترس کھا لے۔ اکثریت ہندوؤں کی تھی۔ حملے کا خدشہ تھا، موت کا ڈر تھا۔ بہر حال جب منزل بڑی ہو تو خوف بلبلے کی طرح ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ یہ کھانا لینے گاؤں میں پہنچ گئے۔ اس دوران وہی ہوا جس کا ڈر تھا، گوریلا حملہ ہوگیا۔ حملہ ہندؤوں پر کیا گیا تھا لیکن اس کی زد میں مسلمان عورت آگئی۔ جس ماتھے کو پاکستان کی سرزمین پر سجدہ دینا تھا اسی جگہ پر گولی نے سرنگ بنا دی، جو سر کے دوسری جانب نکل گئی۔ گولیوں کی آواز سن کر سراج اور فیروز گاؤں کی جانب بھاگے۔ ان کی تایا زاد بہن ابھی زندہ تھی۔ اس کے ہاتھ اٹھے ہوئے تھے۔ شاید الوداع پاکستان کہنا چاہتی تھی، لیکن ایسے لگا جیسے عزرائیل کو کچھ زیادہ جلدی تھی۔ شاید کشمیر کے مذبح خانے پر کام زیادہ تھا۔ روح قبض کر لی، لاش اٹھا لی گئی۔ اکیلی عورت بُدھاں کو اپنی سہیلی کی لاش نہلانے کی ذمہ داری دی گئی۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ میت کو غسل کیسے دیتے ہیں۔ دریا کے کنارے بیٹھ کر اپنی سہیلی کی لاش پر پانی ڈالنا شروع کیا۔ ابھی پیشانی سے لہو صاف کیا ہی تھا کہ قریب ہی ایک گولہ آکر گرا۔.دھماکے سے کان سائیں سائیں کرنے لگے۔ اسے صرف اتنا محسوس ہوا کہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کر محفوظ جگہ آنے کا بول رہا ہے۔ سر اٹھا کہ دیکھا تو وہ اس کا شوہر فیروز تھا۔ بدھاں نے لاش کو نہیں چھوڑا، غسل دیتی رہی۔ اس دوران ایک اور گولا قریب آکر گرا۔ پاک سر زمین سے محبت دیکھیے کہ خرگوش سے ڈرنے والی لڑکی گولہ باری میں بیٹھی لاش کو غسل.دے رہی تھی۔ پورا غسل دیا۔ اس موقع پر کفن کہاں سے ملتا۔ اس کی جیٹھانی کا صندوق کھولا گیا تو اس میں سے ایک سفید رنگ کا لباس نکلا، جس کے ساتھ سبز رنگ کا دوپٹہ بھی تھا۔ اس کی آنکھیں ان کپڑوں کو دیکھ کر بھیگنے لگیں۔ یہ وہی نیا سوٹ تھا جو اس نے پاکستان پہنچ کر پہننا تھا، وہی سوٹ اس کا کفن بنا دیا گیا۔
"مرے وطن تری جنت میں آئیں گے اک دن۔” مرنے والی کشمیر کی جنت سے اپنی جنت میں پہنچ گئی تھی۔ سبز دوپٹے کو دوبارہ صندوق میں رکھا اور کفن پہنا کر ایک چھوٹی سی قبر میں دفنا دیا گیا۔ سفر دوبارہ شروع ہوا۔ دو سو کلومیٹر دور پاکستان تھا۔ راستے میں ایک مکئی کا کھیت نظر آیا، جو کسی کی ملکیت نہیں تھا۔ وہاں سے مکئی کے دانے لیے۔ اب کسی نزدیکی گاؤں میں گھراٹ (آٹا چکی ) ڈھونڈا گیا، لیکن ناکامی منہ چڑاتی رہی۔ آخر دانے ابالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ کچھ برتن اپنے ساتھ تھے۔ آگ جلائی گئی اور دانے ابلنے کے لیے رکھ دیے گئے۔ نور بیگم بانس کے خالی ڈنڈے سے پھونک بھی مارتی جا رہی تھی۔ اچانک شور بلند ہوا کہ حملہ ہوگیا۔ سب اپنا اپنا سامان اٹھانے لگے۔ اس نے بھی گرم برتن میں ابلتا پانی اور مکئی کے کچے دانوں سمیت سب کچھ اٹھا لیا۔ راستے میں دو تین بار ابلتا پانی اس کی جلد پر گرتا رہا، مگر مجال ہے جو زبان سے اف بھی نکلا ہو۔ اتنا وزن اٹھا کر بھی وہ مردوں کے شانہ بشانہ ساتھ چلتی رہی۔ لگ بھگ دو سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر لیا۔ دن میں آرام کیا، راتوں کو سفر کیا۔ سالن کی شکل تک نہ دیکھی، سوکھی روٹیاں مل جاتی تھیں، گزارا چلتا رہا۔ کچھ مکئی کے ابلے دانے ابھی باقی تھے۔ چلتے چلتے جب ایک جگہ پہنچے توآواز آئی کہ "باپُو ہم پاکستان میں کھڑے ہیں۔” آواز سنتے ہی بدھاں کے سر سے برتن نیچے گر گئے۔ مکئی کے سارے دانے بکھر گئے۔ دوسرے ہی لمحے سب نے دیکھا کہ اس کی پیشانی زمین پہ لگی ہے۔ وہ سجدے میں گر گئی تھی۔ جس پاک مٹی کو وہ چوم رہی تھی وہی مٹی آنسوؤں سے تر بھی ہو گئی تھی۔ دنیا اقبال کے خواب کی تعبیر پر جشن منا رہی تھی اور ادھر ایک کشمیری لڑکی اپنے خواب کی تعبیر پر گڑگڑا رہی تھی۔ کچھ سوچ کر وہ اٹھی، صندوق سے وہی سبز رنگ کا دوپٹہ نکالا جو اس کی کزن اس کی سہیلی نے پاکستان پہنچ کر پہننا تھا۔ اسے اوڑھ لیا اور اگلی منزل میر پور کو چل دی۔ اسے چلتے ہوئے محسوس ہو رہا تھا کہ اسے شادی کے لال دوپٹے سے زیادہ خوشی پاکستان کے سبز دوپٹے سے ہو رہی تھی۔
دوستو یہ کہانی نہیں، سچا واقعہ ہے اور مجھے یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ میں اسی نور بیگم (بدھاں) کا بیٹا ہوں، جس نے پاکستان بنتے دیکھا ہے۔ وہ پاکستان جس پر جان نچھاور کرنے والوں کی لاشیں نہلائیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ دنیا کی کوئی لغت آزادی کی صحیح معانی بتا سکے۔ آزادی کے معانی وہ پرندہ ہی بتا سکتاہے جو کسی پنجرے سے آزاد ہوا ہو۔ آج جشن آزادی کی تقریبات عروج پر ہیں۔ پورے ملک میں بڑی بڑی تقریبات کی جارہی ہیں، واقعات کو دہرایا جارہا ہے، تقریریں کی جارہی ہیں، آزادی کے ترانے گائے جارہے ہیں، لیکن شائد وہ کیفیت کبھی پیدا نہ ہو سکے جو ہمارے آباؤ اجداد کی تھی۔ میری ماں آج اپنی زندگی کی نوے(90) بہاریں دیکھ چکی ہیں۔ آج بھی جب لوگ جشن آزادی پر ون ویلنگ کرتے ہیں، فائرنگ کرتے ہیں، محفلیں جماتے ہیں، پٹاخے پھوڑتے ہیں تو میری ماں آنکھیں بند کیے اسی جذبے سے بارگاہِ ایزدی میں اس ملک کی سلامتی کے لیے دعائیں کرتی ہے اور آنکھیں کھلتے ہی چہرے سے یوں لگتا ہے کہ جیسے خوشی میں اپنے بابا سے کہ رہی ہوں "باپُو..! ہم پاکستان میں کھڑے ہیں۔”