کراچی کو قبرستان بنادیا، اونچی عمارتیں بناکر پورا شہر تباہ کردیا: چیف جسٹس

کراچی: پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ کراچی کو قبرستان بنادیا، گلیوں میں اونچی اونچی عمارتیں بناکر پورا شہر تباہ کردیا گیا۔
سپریم کورٹ رجسٹری میں کراچی میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی تو ڈی جی سندھ بلـڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے)، ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین، کمشنر کراچی اور دیگر حکام پیش ہوئے۔ چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے پوچھا کہ ہمارے حکم پر کتنا عمل درآمد ہوا؟، وزیراعلیٰ کو بلائیں اور کہیں رپورٹ لے کر آئیں، ڈیڑھ سال پہلے حکم جاری کیا تھا اب تک عمل نہیں ہوا، کیا توہین عدالت کی کارروائی شروع کردیں؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ موہٹہ پیلس کے سامنے زمینوں پر کسی نے جعلی کاغذ بناکر قبضہ کرلیا ہے، کمشنر کراچی صاحب کسی دور میں وہاں بچے کھیلتے تھے جائیں وہ زمین واگزار کرائیں، شہر کی بلڈنگز ابھی تک اپنی جگہوں پر ہیں، آپ نے کون سی عمارت گرائی بتائیں، کھوڑی باغیچہ کا کیا حال ہے، لیاری کا حال آپ نے دیکھا ہے، لیاری اور گارڈن سے پلے گراؤنڈ اور پارک ختم ہوچکے ہیں، باغ ابن قاسم کی کیا پوزیشن ہے؟ وہاں ایک بڑی بلڈنگ بنی ہوئی ہے اس کا کیا ہوا؟ وہ پلاٹ کس کا ہے 4000 گز کے پلاٹ پر بلڈنگ کس کی ہے؟
اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ وہ ایمینٹی پلاٹ ہے۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ جائیں اپنی زمین خالی کراکر کل رپورٹ دیں، جاکر قبضہ ختم کرائیں، آپ کو ان ہی سے لڑنا ہے چھوٹے موٹے پتھارے والوں کو چھوڑیں۔
چیف جسٹس نے کڈنی ہل کی زمین واگزار کرانے کے معاملے پر کمشنر کراچی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کل تک کڈنی ہل زمین کلیئر نہ ہوئی تو جیل بھیج دیں گے، تجاوزات کا مکمل خاتمہ کرکے رپورٹ دیں۔ سپریم کورٹ نے کڈنی ہل پارک کو فوری کلیئر کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ پارک کو اصل شکل میں بحال کیا جائے اور 31 جون 2021 تک مکمل کرکے شہریوں کے لیے کھولا جائے۔
چیف جسٹس نے ڈی جی ایس بی سی اے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سب کو نظر آتا ہے آپ لوگوں نے کراچی کے ساتھ کیا کیا ہے، افسران کی تو موج ہی موج ہے، اس شہر کو قبرستان بنادیا ہے، گلیوں میں اونچی اونچی عمارتیں بنا دیں پورا شہر تباہ کردیا، فاتحہ پڑھنا شروع کردیں اس شہر پر ، کوئی امریکا کوئی لندن اور کینیڈا میں بیٹھا ہے، آپ بھی کل چلے جائیں گے امریکا، تباہ کردیں اس شہر کو، جو کچھ مردم شماری میں اس شہر کے ساتھ کیا ہے سب نے دیکھا، حکومت کی منظوری سے شہر میں غیرقانونی تعمیرات ہوئی ہیں، لوگوں سے پیسے لے کر ساری بلڈنگز بنوا دیں، سب کو ماردیں گے آپ لوگ ابھی سے فاتحہ پڑھ دیں کروڑوں لوگوں پر، یہ شہر تو اب پرائیویٹ لوگوں کا ہوگیا سب نے اپنی مرضی کے علاقے بنالیے، آپ لوگوں نے غیر قانونی طور پر زمینیں بیچ دیں، غریبوں نے ساری زندگی کی جمع پونجی لگادی۔
ڈی جی ایس بی سی اے نے کہا کہ ہم تجاوزات کے خاتمے کی کوشش کررہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیا کریں گے بلڈوزر لے کر نکل جائیں جتنے غریب لوگ ہیں سب رُل جائیں گے، سندھ بلڈنگ کے ایک ایک آدمی کے ساتھ پورا مافیا چلتا ہے۔
ڈی جی نے کہا کہ مجھے حکومت کی سپورٹ ہے کام کروں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے اتنی کمزور سپورٹ کا ذکر کیا ہے جس کا وجود ہی نہیں، حکومت ہوتی تو یہ حال ہوتا؟ کراچی میں گینگ اور مافیاز کام کررہے ہیں، پورا شہر تجاوزات سے بھرا ہے غیرقانونی عمارتوں کی بھرمار ہے، سرکاری زمینیں ہاتھ سے نکل گئی ہیں ساری، فارمز بنے ہوئے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، وزیر تعلیم سعید غنی، مرتضیٰ وہاب وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ، امتیاز شیخ، صوبائی وزیر ایکسائز مکیش کمار چاولہ، مشیر جیل خانہ جات اعجاز جاکھرانی، صوبائی وزیر شہلا رضا سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت گرین لائن بس سروس کے حوالے سے بات ہوئی تو عدالت نے کہا کہ آپ کے اس کام سے اس شہر میں کتنی پریشانی ہے؟ روزانہ پچاس لاکھ لوگ پریشان ہوتے ہیں شہر کو مشکل میں ڈال دیا ہے، مزار قائد کے پاس کچھ مت بنائیے گا فلائی اوورز وغیرہ کیا بنارہے ہیں؟ نمائش پر کیا بنارہے ہیں؟
سربراہ کراچی انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی (کے آئی ڈی سی) نے بتایا کہ تین لائنز کا جنکشن بن رہا ہے، گرین لائن بسوں کا آرڈر دیا جاچکا مئی میں بسیں آجائیں گی، سرجانی سے یومیہ تین لاکھ لوگ سفر کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک دفعہ نارتھ ناظم آباد گئے تباہی مچی ہوئی تھی، اتنی مشکل سے گئے سب تباہ ہوگیا ہے، آپ نے پورا بندر روڈ بھی خراب کردیا، شہر کے بیچ میں بنانے کا کوئی جواز نہیں تھا انڈر گراؤنڈ بناتے، اربوں روپے لگادیے، مین سڑکیں تباہ کردیں، دو دو تین تین لینز خراب کردیں، سچ بات یہ ہے آپ نے شہر کو تباہ کردیا ہے اگر کچھ کرنا تھا تو رنگ روڈز بناتے، اس شہر کو ماس ٹرانزٹ کی ضرورت تھی، شاہراہ فیصل پر راشد منہاس والا فلائی اوور پورا ٹریفک روک لیتا ہے یہ انجینئرنگ ہے آپ کی، آپ کو پانی دینا ہے گٹر ٹھیک کرنا ہے تو پیسہ باہر سے آئے گا، تھر میں آر او پلانٹس کا کیا ہوا؟ سب خراب ہیں پندرہ ارب روپے جھونک دیے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ نے ریڈ لائن بس کے لیے رفاہی پلاٹ کیسے لے لیا؟ کوئی پرائیویٹ زمین لیتے کھیل کا میدان کیوں لیا؟ سب سے خطرناک بات یہ ہے کابینہ کو رفاہی پلاٹس کنورٹ کرنے کا اختیار ہے اور وہ کنورژن (ان کی) کررہی ہے۔
وکیل نے بتایا کہ سندھ حکومت نے ایئرپورٹ کے پاس رفاہی پلاٹ کی غیر قانونی الاٹمنٹ کردی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ شکر کریں سندھ حکومت نے ایئرپورٹ کسی کو الاٹ نہیں کردیا، یہ لوگ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے کہا کہ مسٹر سی ایم ہم نے مئی 2019 میں حکم دیا تھا کیا ہوا اس کا؟ مراد علی شاہ نے جواب دیا کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد کررہے ہیں معذرت چاہتا ہوں اگر درست رپورٹ پیش نہیں کرسکے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آپ کی معذرت کی ضرورت نہیں ہمیں حکم پر عمل درآمد کی رپورٹ دیں، سارا حکم نامہ ابھی پڑھ کر سنایا گیا بتائیں کچھ بھی عمل نہیں ہوا۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ میں معذرت کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا کہ کچھ نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ زمینی حقائق یہی ہیں کہ کچھ نہیں ہوا ہے، ہمیں کوئی ایک چیز بتادیں کراچی کی بہتری اور اصل شکل میں بحالی کے لیے کیا قدم اٹھایا؟ مراد علی شاہ نے جواب دیا کہ شہید ملت سے طارق روڈ تک نئی سیوریج لائنیں، یونیورسٹی روڈ تعمیر کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی کے شہری تو گاؤں میں رہتے ہیں سارا شہر گاؤں میں تبدیل ہوگیا، نہ سڑکیں ہیں نہ پانی نہ پارک نہ میدان کچھ بھی نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ نے درخواست کی کہ کچھ مہلت مل جائے تو عمل درآمد رپورٹ پیش کردیں گے۔ عدالت نے حکم پر عمل درآمد کرکے ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔
چیف جسٹس نے ناصر شاہ سے کہا کہ آپ کے حوالے سے خبر لگی ہے بلڈنگز بنانے کی اجازت دے دیں، شہر میں کہاں جگہ ہے جو نئی عمارتیں بنیں گی؟ ناصر حسین شاہ نے کہا کہ کسی کو غیرقانونی تعمیرات کی اجازت نہیں دیں گے آپ کے حکم کی تعمیل ہوگی۔

Chief Justice of PakistanCM SindhkarachiSupreme court of Pakistan