چند روز پہلے کراچی میں سندھ حکومت نے دو نئی بس سروس شروع کیں جن میں ایک پیپلز اسمارٹ بس سروس جو کہ شاہ فیصل کالونی سے اختر کالونی اور شاہراہ فیصل تک مقرر کی گئی جبکہ دوسری بس سروس جس کو پاکستان کی پہلی الیکٹرک بس کا اعزاز بھی ملا، الیکٹرک بس ٹاور سے بس ٹرمینل سپر ہائی وے تک عوام الناس کے لئے شروع کی گئی ہے، صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ اویس قادر شاہ کے مطابق سال کے آخر تک شہر میں ایک سو الیکٹرک بسیں عوام کی ٹرانسپورٹ میں سہولت مہیا کریں گی۔
اس قسم کی سروسز کو عوام کی سہولیات میں ایک اضافہ سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ کراچی آبادی کے لحاظ سے بہت بڑا شہر ہے لیکن یہاں کے پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام آبادی کے حساب سے انتہائی نامناسب ہے۔ حال ہی میں ایک بین الاقوامی ادارے کے سروے کے مطابق کراچی کے پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام پوری دنیا میں پرانا اور بیکار ہے۔ اس صورتحال میں صوبائی حکومت کی جانب سے یہ دو بس سروسز جو عوام کو نجی بس سروس کے مقابلے میں کچھ بہتر سروس مہیا کرے گی۔
شروع میں پیپلز اسمارٹ بس سروس کے بارے کہا گیا کہ یہ کراچی کی پہلی کنڈکٹر لیس بس سروس بھی ہوگی جس میں اسمارٹ کارڈ کے ذریعے کرایہ 3 روپے فی کلو میٹر کے حساب سے وصول کیا جائے گا لیکن سروس کے شروع ہونے کے بعد بس میں کنڈکٹر بھی دیکھنے کو ملا اور کرایہ بھی نجی پبلک ٹرانسپورٹ کی طرح وصول کیا جارہا ہے۔ پہلے تو یہ بتایا گیا تھا کہ بس سروس ایک موبائل ایپلیکیشن کے ذریعے بھی استعمال کی جاسکے گی لیکن اب تک کوئی ایسی پیشرفت نہیں ہوئی۔
یہ تو داستان تھی دو نئی بس سروسز کی لیکن میرا ذہن ان بس سروسز کی طرف جا رہا ہے جو شاہراہ فیصل پر پورا دن دکھائی دیتی تھیں اور اب نامعلوم کہاں اور کیوں غائب ہیں۔ میں یہاں پر ’پیپلز بس سروس‘ اور ’گرین بس سروس‘ کا ذکر کر رہا ہوں جو عالمی وباء کورونا وائرس کی وجہ سے مارچ 2020 میں بند کی گئی تھیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے جہاں پوری دنیا بند ہوگئی تھی وہیں بس سروس بند ہونا کوئی بڑی بات نہیں تھی لیکن چند ماہ بعد حالات بہتر ہونے کے بعد آہستہ آہستہ سب کچھ کھلنا شروع ہوگیا۔ مارکیٹس، پبلک ٹرانسپورٹ، ہوٹل، ریسٹورنٹ، شادی ہال مطلب عوامی جگہیں پھر سے آباد ہونے لگیں۔ ویران شہر پھر سے آباد ہو گئے لیکن جو اب تک بند اور غائب ہے وہ کراچی کی یہ دونوں بس سروسز ہیں جن کے ذریعے روزانہ ہزاروں افراد اپنا سفر کیا کرتے تھے۔
گرین بس کراچی کے علاقے گلشن حدید سے اور پیپلز بس سروس داؤد چورنگی سے ٹاور(کیماڑی) تک ہر روز ہزاروں افراد کے سفر کا ذریعہ تھیں۔ لیکن اب کراچی کی یہ دونوں سرکاری بس سروسز عوام کی پہنچ سے دور ہوگئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان بس سروسز کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ نہ عوام کو یاد ہے اور نہ بس سروسز کے عملداروں کو، سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ملک کی میڈیا بھی اس بات سے لاتعلق بنی بیٹھی ہے۔
تین کروڑ آبادی کے شہر میں پہلے ہی نامناسب اور ضرورت سے بےحد کم پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت ہے۔ اس کے باوجود دو بس سروسز بند ہوں، یہ تو اور بھی عوام کی تکلیف میں اضافہ بن گیا ہے۔ جہاں دوسری بس سروس شروع کی جارہی ہے وہیں بند کی گئی گرین بس اور پیپلز بس سروس کو پھر سے ایس او پیز کے تحت بحال کر کے عوام کو سہولت دے کر ان کی پریشانی دور کی جائے۔
اگر کورونا وائرس کے خوف سے گرین اور پیپلز بس سروسز بند ہیں تو اس صورتحال میں دوسری بس سروسز شروع کرنا دوہرا معیار ثابت ہوگا۔ حکومت سے مطالبہ ہے کہ پیپلز اسمارٹ بس سروس کے ساتھ بند پڑی دونوں بس سروسزکو بھی بحال کیا جائے تاکہ عوام کی سہولیات میں بہتر انداز میں اضافہ ہوسکے۔