انتہائی دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری قومی تاریخ سانحات سے لبریز ہے۔ کس کس کا ذکر کیا جائے۔ ہم بہ حیثیت قوم ان سانحات کے عادی ہوچکے، کوئی سانحہ گزرتا ہے تو اُس وقت تک میڈیا اور عوام میں زیر بحث رہتا ہے، جب تک کوئی دوسرا سانحہ یا واقعہ رونما نہ ہوجائے۔ اُس کے بعد دوسرا سانحہ ہاٹ ایشو بن جاتا اور پُرانا واقعہ وقت کی گرد تلے دب کر رہ جاتا ہے۔
دیکھا جائے تو وطن عزیز کے طول و عرض میں آئے روز آگ لگنے کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، جن میں کئی افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ یہاں آگ بجھانے کے ضمن میں سہولتوں کے حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ کبھی آگ پر قابو پانے میں گھنٹوں بیت جاتے ہیں تو کبھی آگ دنوں کے گزر جانے کے باوجود کنٹرول میں نہیں آپاتی، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود فائر بریگیڈ کے نظام کو موثر اور جدید خطوط پر استوار نہیں کیا جاسکا۔
گزشتہ روز شہر قائد میں ایسا ہی آگ لگنے کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا ہے، جس میں 17 غریب مزدور اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ خبر کے مطابق کراچی کے علاقے مہران ٹاؤن میں واقع کیمیکل فیکٹری میں آتشزدگی کے نتیجے میں 17 مزدور جاں بحق ہوئے، جن میں 5 سگے بھائی بھی شامل ہیں۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری فیکٹری کو لپیٹ میں لے لیا۔ آگ بجھانے کی کوشش کے دوران 2 فائر فائٹرز اور ریسکیو کے دوران ایدھی کا ایک اہلکار زخمی ہوا۔ مزدور مدد کے لیے چیختے رہے۔ فیکٹری کا ایگزٹ گیٹ ایک ہی تھا، جسے فیکٹری مالک نے تالا لگا کر بند کیا ہوا تھا۔
ریسکیو حکام کے مطابق مجموعی طور پر فیکٹری کی عمارت میں 20 سے 25 مزدور موجود تھے۔ زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہونے کے باعث اموات میں اضافے کا خدشہ ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مُراد علی شاہ نے کیمیکل فیکٹری میں آتشزدگی کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر کراچی اور لیبر ڈپارٹمنٹ سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ یہ بڑا ہی افسوس ناک سانحہ ہے، کئی گھرانوں میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ روزگار کمانے کے لیے جانے والے کبھی واپس نہ آنے ایسی تلخ یاد اپنے لواحقین کے لیے چھوڑ گئے۔ اُس گھر کے لوگوں کا کیا حال ہوگا، جس کے پانچ سگے بھائی اس سانحے کے نتیجے میں ایک ہی دن اس دُنیا سے رخصت ہوگئے۔
اطلاعات کے مطابق فیکٹری مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ ان کے خلاف سخت ترین قانونی چارہ جوئی ناگزیر ہے کہ اس کے بغیر کوئی اور چارہ بھی نہیں۔ گو سندھ حکومت نے اس سانحے میں جاں بحق افراد کے ورثاء کے لیے فی کس 10 لاکھ روپے امداد دینے کا اعلان کیا ہے، اس سے کیا ان کے پیارے واپس آجائیں گے۔ یہ زخم کبھی نہیں بھرسکے گا۔ حکمرانوں کی جانب سے افسوس کے بیانیے سامنے آرہے ہیں۔ ضروری ہے کہ افسوس کے دو بول بولنے کی روش ترک کی جائے بلکہ اُن وجوہ کا پتا لگایا جائے جن کے سبب یہ حادثات ہوتے ہیں اور پھر اُن کا موثر تدارک کیا جائے، کہ آئندہ کبھی اس قسم کے سانحات ملک میں رونما نہ ہوسکیں۔
آخر مزدور یوں فیکٹریوں، کارخانوں میں کب تک مرتے رہیں گے۔ کبھی کوئی مالک فیکٹری یا کارخانے میں کسی حادثے سے دوچار ہوتا ہوا تو نظر نہیں آیا۔ ایسی نظیر ڈھونڈے سے بھی ملکی تاریخ میں دِکھائی نہیں دیتی۔ آخر کام کی جگہوں پر غریب مزدوروں کی زندگیوں کو تحفظ دینے ایسے اقدامات کا فقدان کیوں ہے؟ ملک کے تمام حصّوں میں اس حوالے سے سیفٹی اقدامات کیوں نہیں یقینی بنائے جاتے؟ حکومتیں سیفٹی انتظامات ممکن بنانے کی خاطر فیکٹری اور کارخانہ مالکان پر دباؤ کیوں نہیں ڈالتیں۔ فیکٹریوں اور کارخانوں کے مالکان اپنے غریب مزدوروں کے بل بوتے پر کروڑوں کماتے ہیں، لیکن ان غریب مزدوروں کے تحفظ کے لیے چند لاکھ روپے صَرف کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ بہت ہوچکا، اب یہ سلسلہ رُک جانا چاہیے اور کام کی جگہوں پر مزدوروں کے لیے سیفٹی انتظامات ہر صورت ممکن بنانے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ جو مالکان ایسا نہیں کرتے، اُن کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
فائر بریگیڈ کے نظام کو ملک بھر میں موثر اور دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ آگ بجھانے کے جدید آلات اور مشینریز کا بندوبست ناگزیر ہے۔ فائر فائٹرز کے معاوضے میں معقول اضافہ کیا جائے۔ اُن کی سیفٹی کے لیے بھی ضروری انتظامات کیے جائیں۔ اگر ہنگامی بنیادوں پر یہ اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ بھی اسی قسم کے حادثات رونما ہوتے رہیں گے اور اُن میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات سامنے آتے رہیں گے۔