پی ٹی وی کا سنہری دور آج بھی بے شمار ناظرین کے ذہنوں میں محفوظ ہے، وہ کبھی محو نہیں ہوسکے گا کیونکہ اس سے ایسی یادیں وابستہ ہیں کہ لوگ چاہ کر بھی بھلا نہیں سکتے۔ ہمارے سرکاری ٹیلی وژن کے ذریعے ناظرین کو معیاری اور زبردست تفریح مہیا ہوتی تھیں۔ اس میں کئی نابغۂ روزگار شخصیات کی محنتیں شامل ہوتی تھیں، ان ہی ہستیوں میں سے دو اہم اور بڑے نام گزشتہ دنوں اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ جمعرات کی شب پی ٹی وی کی پہلی خاتون اناؤنسر اور اداکارہ کنول نصیر کی رحلت ہوئی جب کہ جمعہ کی صبح پی ٹی وی کے سنہری دور کے کئی یادگار ڈرامے لکھنے والی عظیم ادیبہ حسینہ معین وفات پاگئیں۔
ان دونوں خواتین نے اپنے معیاری کام اور اعلیٰ صلاحیتوں کی بدولت پاکستان ٹیلی وژن پر انمٹ نقوش چھوڑے، اُن کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک ایک کرکے، وہ تمام روشن اور درخشاں ستارے ڈوب رہے ہیں، جن سے کبھی ہمارے ٹیلی وژن کا آسمان منور تھا۔ ایسی ایسی عظیم ہستیاں ہم سے روٹھ کر اُس جہان جاچکیں، جہاں سے کوئی، کبھی واپس نہیں آتا۔ کیسے کیسے لوگ رزقِ خاک ہوئے، ان دونوں ہستیوں کے وصال پر ان کے مداح خاصے دل گرفتہ ہیں۔ نگینے جیسے لوگ جارہے ہیں۔ کنول نصیر نے 26 نومبر 1964 کو پی ٹی وی کے قیام کے وقت پہلی اناؤنسمنٹ کی تھی، انہوں نے 17 سال کی عمر سے ٹی وی میں کام کرنا شروع کیا، ٹی وی ڈرامے کی پہلی ہیروئن بھی کنول نصیر ہی تھیں۔ اس کے علاوہ کمپیئرنگ بھی اُن کا معتبر حوالہ ہے، انہوں نے اس شعبے کو بھی اپنی زندگی کا بڑا وقت دیا اور خُوب داد سمیٹی۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن سے ساری زندگی اپنا ناتا برقرار رکھا۔ ان کی والدہ موہنی حمید ریڈیو پاکستان کی ایسی آواز تھی، جس کا جادو سر چڑھ کے بولتا تھا۔ اپنی والدہ کی طرح کنول نصیر بھی ریڈیو پر پروگرام کرتی رہیں۔ کنول نصیر کا تعلق بنیادی طور پر لاہور سے تھا اور وہیں انہوں نے اپنی زندگی گزاری۔ کنول نصیر نرم لہجے میں ناپ تول کے گفتگو کرتی تھیں۔ یہ وقار اور دبدبہ ان کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتا تھا۔ وہ شفیق اور حلیم طبع شخصیت تھیں۔
حسینہ معین کی اچانک وفات کی خبر بھی جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔ آپ کراچی آرٹس کونسل کی منتخب نائب صدر تھیں۔ آپ نے پی ٹی وی کے لیے لازوال ڈرامے تحریر کیے، شہ زوری، زیر زبر پیش، اَن کہی، تنہائیاں، انکل عرفی، کسک، دھوپ کنارے، دھند، آہٹ ایسے لازوال ڈرامے اب شاید کبھی دوبارہ نہ بن سکیں۔ حسینہ معین کے انداز تحریر سے متاثر ہوکر بھارت کے نامور اداکار و فلم ساز راج کپور نے انہیں اپنی فلم ”حنا“ کا اسکرپٹ لکھنے کی پیشکش کی تھی، اس فلم کے کچھ مکالمے انہوں نے لکھے۔ اس فلم کو زیبا بختیار کی اداکاری نے چار چاند لگادیے۔ حسینہ معین نے ایک پاکستانی فلم ”کہیں پیار نہ ہوجائے“ لکھی تھی، اس سے قبل وہ اردو فلم ”نزدیکیاں“ اور وحید مراد کی فلم ”یہاں سے وہاں تک“ کے مکالمات بھی لکھ چکی تھیں۔ حسینہ معین کو حکومت پاکستان کی جانب سے اُن کی خدمات کے اعتراف میں 1987 میں صدارتی تمغہ برائے حُسنِ کارکردگی بھی عطا کیا گیا۔ آپ ملک کی سب سے بہترین ڈراما نگار سمجھی جاتی ہیں۔
خبروں کے مطابق حسینہ معین کو اچانک جمعہ کی صبح دل کا دورہ پڑا، جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اُن کی عمر 80 برس تھی۔ ان دونوں عظیم ہستیوں کے مداح سوگواری کی کیفیت میں ہیں۔ تب سے اب تک سماجی ذرائع ابلاغ کی سائٹس پر ان کے حوالے سے بے شمار پوسٹیں دیکھنے میں آرہی ہیں، لوگ غم و دُکھ کا اظہار کررہے اور دونوں ہستیوں کو اپنے اپنے الفاظ میں خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔ ان دونوں خواتین کی وفات سے ان شعبوں میں ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے، جو کبھی پُر نہیں ہوسکے گا۔