جیو پالیٹکس کے طالب علموں کیلئے یہ کوئی انوکھی خبر نہیں، لیکن ایک موہوم سی امید تھی کہ شاید مغرب کی آنکھ میں شرم کا کوئی بال ہوگا، پھر یاد آیا کہ میرے استاد کہا کرتے تھے کہ بین الاقوامی سیاست کا کوئی مذہب، زبان، رنگ نہیں ہوا کرتا، یہاں بس مفادات چلتے ہیں۔
موجودہ دور میں تمام ممالک محض دو عالمی طاقتوں کے مہرے ہیں۔ ہمارے لوگ بھارت کو بڑا دشمن سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقتاً بھارت اس بساط میں امریکہ نامی طاقت کا بہت چھوٹا اور کمزور سپاہی ہے، جسے چین نامی دوسری طاقت کے وزیر (پاکستان) کو الجھائے رکھنے کےلئے رکھا گیا ہے۔ یہاں بات اتنی سادہ نہیں ہے کہ ہم محض افغان سرزمین پر امریکی شکست کو اِن واقعات کی وجہ مان لیں کہ امریکہ ہم سے بدلہ لے رہا ہے۔ اگر آپ عالمی معاملات سے باخبر ہیں تو معلوم ہوگا کہ گزشتہ ہفتے مشہور امریکی صحافی باب وڈ ورڈ کی آنے والی نئی کتاب ان دنوں بہت چرچے میں ہے۔ اس کتاب میں بوب نے امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مائک مِلے کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ چینی ہم منصب سے رابطے میں تھے کہ خدشہ تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ چین کے خلاف جنگ چھیڑنے والا ہے۔ امریکی جنرل اپنے چینی ہم منصب کو یقین دہانی کروا رہے تھے کہ ہم صورتحال دیکھ رہے ہیں اور ایسا کچھ نہیں ہونے دیں گے۔
جہاں ایک طرف یہ بات سوچنے کی ہے کہ آخر امریکی جنرل نے کس حیثیت سے چین کو يقین دہاني کروائی؟ دوسری بات یہ کہ آخر امریکی سیاسی اسٹیبلشمنٹ چین سے اتنی زچ کیوں ہے کہ بات جنگ تک آن پہنچی ہے؟
تو جناب امریکہ کے غصے کی اصل وجہ "ساؤتھ چائنا سی” نامی آبی گزرگاہ ہے، جو تجارت کے حوالے سے سونے کی چڑیا کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ امریکہ کے اتحادی ممالک کو یہاں چین کی دادا گیری پر تشویش ہے لیکن چین کسی کی تشویش کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس روٹ کے ایک بڑے حصے پر اپنا حق سمجھتا ہے۔ اب اس خطے کو جنگ کے میدان میں جھونکنے کے لئے امریکہ اپنے دیگر اتحادی ممالک بالخصوص آسٹریلیا اور انگلینڈ کے ساتھ مل کر اس پورے روٹ کو جنگ کے میدان میں بدلنے جارہا ہے۔ اس سب میں ” فائیو آئیز” ممالک مکمل طور پر شریک ہیں ( امریکہ، کینیڈا، نیو زی لینڈ، آسٹریلیا ،انگلینڈ)، لہٰذا چین کے ساتھ اس کے دیرینہ اتحادی دوست پاکستان بھی ان ممالک کے غضب کا شکار ہورہاہے۔ فرنٹ پر شاید افغان صورتحال اور اس میں پاکستان کے کردار کو ہی رکھا جائے، پر حقیقتاً یہ سارا کھیل چین اور اُس کے بڑھتے تجارتی اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لئے رچایا جارہا ہے اور اس بات سے پاکستان اور چین بخوبی واقف ہیں۔
آنے والا وقت مشکل ضرور ہے پر قومیں اِن مشکل حالات میں ہی تیزی سے پنپتی ہیں۔ بحیثیت قوم ہمیں مشکل وقت کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ کرکٹ ہو نہ ہو، کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ہمارا دشمن گلی کے اُس بچے کی طرح ہے جو آؤٹ ہونے کا غُصہ اس طرح نکالتا ہے کہ بلا لے کر گھر چلا جاتا ہے، جبکہ فی الحال ہماری مجبوری یہ کہ ہمارے پاس اپنا ذاتی بلا (معاشی استحکام) نہیں ہے، لہٰذا کھیل جاری رکھنا (ملک چلانا) مشکل ہوسکتا ہے۔ خیر عالمی سیاست میں یہ اتار چڑھاؤ لگے رہتے ہیں اور ویسے بھی کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ 2023 عالمی حالات میں کسی بڑی جنگ کا سال ہوسکتا ہے! اللہ پاک پاکستان کو ہر شر سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین