تحریر : اظہر احمد
مختصر تعارف:
جامع القرآن، تصویرِ حیا و پیکرِ ایمان، مجمعِ صبر و رضا، ذوالنورین امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عثمان ابن عفان (رض) خلیفہ ثالث اور دامادِ رسول کریم (ﷺ) ہیں-آپؓ کی ولادت عامُ الفِیل کے چھ سال بعد مکہ مکرمہ میں ہوئی- آپؓ کا تعلق قریش کی شاخ بنو اُمیہ سے تھا- آپؓ کی والدہ ماجدہ اردی بنت کریز حضور نبی کریم (ﷺ) کی پھوپھی زاد بہن تھیں- آپؓ کی کنیت ابو عبداللہ اور ابویعلی ہے- آپؓ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق(رض) کی دعوت پر اسلام لائے، قبولِ اسلام کے وقت آپؓ کی عمر مبارک 34برس تھی – زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ آپؓ کی شرم و حیاء کے معترف تھے، آپؓ کبھی بھی کسی بدفعلی کی طرف نہ راغب ہوئے، نہ کبھی شراب پی اور نہ ہی کبھی جھوٹ بولا-
حلیہ مبارک:
آپؓ کا قد مبارک درمیانہ تھا، رنگ سفید و سرخ مائل تھا، داڑھی گھنی تھی جس پر زرد خضاب لگاتے، ہڈیاں چوڑی اور شانے پھیلے ہوئے تھے، پنڈلیاں بھری ہوئیں اور ہاتھ لمبے تھے، دندان انتہائی خوبصورت اور بال کانوں تک لٹکے ہوئے تھے-
امام حاکم (رح) نے حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:
’’صحابہ میں سے مجھ سے زیادہ عثمان (رض) مشابہت رکھتے ہیں‘‘-
ابن عدی نے اور ابن عساکر نے ابن عمر(رض) سے روایت بیان کی ہے حضور نبی کریم (ﷺ) نے حضرت عثمان (رض) کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ:
’’ہم اور عثمان اپنے والد ابراہیم (رض) سے بہت مشابہہ ہیں‘‘-
خصائلِ عثمان ابن عفان (رض):
اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپؓ کو دولت و ثروت سے نوازا تھا جسے آپؓ نے اسلام کی خدمت میں صرف کیا-امام ترمذی (رح) نے عبدالرحمٰن بن خباب سے روایت کیا ہے کہ:
غزوۂ تبوک (عسرۃ) کے موقع پر مسلمانوں کی بے سر و سامانی کے پیشِ نظر حضرت عثمان(رض) نے پہلی دفعہ سو، دوسری مرتبہ دو سو اور تیسری مرتبہ تین سو اونٹ دینے کا وعدہ کیا، مگر آپ (رض) نے950 اُونٹ، 50 گھوڑے اور ایک ہزار اشرفیاں پیش کیں اور پھر مزید 10 ہزار اشرفیاں پیش کیں- ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں مسلمانوں کو میٹھا پانی فراہم کرنے کی غرض سے حضرت عثمانؓ نے بئر رومہ (کنواں) خرید کر اسے امیر، غریب، مسافر، غرضیکہ سب کے لیے وقف کر دیا- ان دونوں مواقع پر آپؓ نے حضور رسالتِ مآب (ﷺ) کی زبانِ اقدس سے جنت کی بشارت حاصل کی- امام حاکم نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عثمان (رض) نے دو مرتبہ جنت خریدی-ایک مرتبہ تو بئر رومہ خرید کر اور دوسری دفعہ جیش عسرۃ کو ساز و سامان فراہم کرکے‘‘-
’’غزوہ بدر کے موقع پر آپؓ کی زوجہ محترمہ حضرت رقیہ (رض) شدید علیل تھیں، حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے آپؓ کو ان کی تیمارداری کا حکم دیا، جس کی وجہ سے آپ غزوہ میں شریک نہیں ہوسکے لیکن حضور رسالتِ مآب (ﷺ) نے آپ کو اہلِ بدر میں شامل فرمایا اور مالِ غنیمت میں سے آپؓ کو حصہ بھی عنایت فرمایا‘‘-
امام ترمذی عبدالرحمٰن بن سمرہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ:
’’بیعتِ رضوان کے موقع پر حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے حضرت عثمانؓ کو مکہ مکرمہ کی جانب ایلچی بنا کر بھیجا- چونکہ آپؓ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے کام سے گئے تھے اس لیے بیعتِ رضوان میں حضور نبی مکرم (ﷺ) نے اپنے دستِ مبارک کو حضرت عثمانؓ کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے انہیں شاملِ بیعت فرمایا‘‘-
’’جب مکہ مکرمہ میں آپؓ پر ظالمین نے زمین تنگ کرنا شروع کردی تو حضور رسالت مآب (ﷺ) کے حکم مبارک پر آپ اپنی زوجہ محترمہ حضرت رقیہؓ کے ہمراہ حبشہ ہجرت کرگئے- جناب رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ میری امت میں عثمان (رض) پہلا شخص ہے، جس نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کی‘‘-
’’کچھ عرصے بعد آپؓ مکہ مکرمہ واپس تشریف لے آئے اور ہجرت مدینہ کے وقت دوبارہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے حکم کے مطابق آپؓ اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ تشریف لے گئے‘‘-
آپؓ زوجِ ابناتِ شہنشاہِ رسولاں ہیں۔ سنن بیہقی، مسند ابن عساکر، فضائلِ صحابہ و دیگر مستند کتب میں درج ہے کہ حضور رسالتِ مآب (ﷺ) نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہؓ کا نکاح حضرت عثمان غنیؓ سے فرمایا، حضرت رقیہؓ کے وصال کے بعد حضور رسالت مآب (ﷺ) نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت امُ کلثومؓ کا نکاح بھی حضرت عثمانؓ سے فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو ذوالنورین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
امام بدرالدین عینی بیان فرماتے ہیں کہ:
’’یہ شرف حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام سے قیامت تک کسی بھی شخص کو حاصل نہیں کہ اس کے نکاح میں کسی نبی کی دو صاحبزادیاں آئی ہوں‘‘-
طبرانی نے عصمہ بن مالک سے روایت بیان کی ہے کہ:
حضرت امُ کلثومؓ کے وصال کے بعد حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حکم فرمایا کہ عثمانؓ کا نکاح کسی سے کروادیا جائے، اگر میری کوئی اوربیٹی ہوتی تو میں اس کا نکاح بھی عثمان سے کروا دیتا۔
معجم اوسط میں حضور رسالتِ مآب کا حضرت عثمانؓ کے متعلق ارشاد ہے کہ:
’’ اگرمیری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں ایک کے بعد دوسری سے تمہارا نکاح کردیتا کیونکہ میں تم سے راضی ہوں‘‘-
آپ کی عظمت و حشمت کو صحابہ کرام (رض) بخوبی جانتے تھے۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی 256ھ روایت کرتے ہیں کہ عثمان بن موہب بیان کرتے ہیں کہ:
’’ایک شخص حج بیت اللہ کرنے کے لیے آیا- اس نے کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا، اس نے پوچھا یہ کون لوگ بیٹھے ہوئے ہیں؟ لوگوں نے کہا یہ قریش ہیں ،پوچھا یہ بوڑھا آدمی کون ہے؟ لوگوں نے کہا یہ حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ ہیں، اس نے کہا میں آپ سے سوال کرتا ہوں کیا آپ مجھے اس کا جواب دیں گے؟ میں آپ کو اس بیت اللہ کی حرمت کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان بن عفان جنگ احد کے دن میدان چھوڑ کر چلے گئے تھے؟ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا، ہاں! اس نے کہا، کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ غزوۂ بدر میں بھی حاضر نہیں ہوئے تھے؟ حضرت ابن عمر نے فرمایا، ہاں! اس کا تیسرا سوال یہ تھا کہ کیابیعتِ رضوان میں وہ غائب نہیں تھے؟ آپ نے فرمایا ہاں! اس نے نعرہ لگایا، اللہ اکبر۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا، تم نے جن چیزوں کے متعلق سوال کیا تھا اب میں تم کو ان کی وجوہ بیان کرتا ہوں۔ جنگ احد کے معاملے میں، مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ نے انہیں معاف کردیا اور غزوہ بدر میں غیر حاضری کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کی صاحبزادی حضرت رقیہ ؓ ان کے نکاح میں تھیں (وہ ان کی تیمارداری کررہے تھے) اور رسول اللہ (ﷺ) نے ان سے فرمایا تم کو بدر میں حاضر ہونے والے مسلمانوں سا اجر اور مال غنیمت ملے گا اور بیعت رضوان سے غائب ہونے کا معاملہ یہ ہے کہ بیعت اس وقت ہوئی تھی جب حضرت عثمان ؓ مکہ جاچکے تھے-حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنے دائیں ہاتھ کے متعلق فرمایا، یہ عثمان کا ہاتھ ہے، پھر اس کو اپنے دوسرے دستِ مبارک پر رکھا اور فرمایا، یہ عثمان کی بیعت ہے۔ پھر حضرت ابن عمر نے اس شخص سے فرمایا، تم نے یہ جوابات سن لیے اب جہاں جانا چاہو چلے جاؤ‘‘۔
حضرت سیدنا عثمان ابن عفان (رض) کا دورِ خلافت:
شہادتِ خلیفہ دوم فاروقِ اعظم حضرت عمر ابن خطاب (رض) کے تین دن بعد حضرت عثمانؓ مَسندِ خِلافت پر فائز ہوئے- مسند امام احمد کی روایت ہے کہ:
’’حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے تنہائی میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے پھر حضرت زبیرؓ سے اور پھر حضرت سعدؓ سے دریافت کیا کہ وہ کس کی بیعت کریں گے تو تینوں نے حضرت سیدنا عثمان ابن عفانؓ کا اسم گرامی لیا۔‘‘
’’شہادتِ خلیفۂ دوم فاروق اعظمؓ کے بعد غلط فہمی اور جنونی حالت میں عبیداللہ ابن عمر نے ہرمزان، جفینہ اور قاتل فیروز کی بیٹی کا قتل کردیا تھا- اس وقت خلیفۂ سوم کی تقرری بھی نہیں ہوئی تھی، لیکن خلیفہ نامزد ہونے کے بعد حضرت عثمانؓ کے پاس یہ مقدمہ پیش ہوا تو آپؓ نے کبار صحابہ ؓ کا کمیشن تشکیل دیا- مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور حضرت سیدنا عثمان ابن عفان (رض) نے قصاص کا حکم دیا، لیکن چونکہ عبیداللہ ابن عمرؓ کی نفسیاتی حالت درست نہ تھی اس لیے اکثریت نے قصاص کے بجائے دیت کا مشورہ دیا، جسے قبول کرلیا گیا- نیز ہرمزان کے بیٹے قماذبان بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے مجھے اجازت دی کہ عبیداللہ ابن عمر کے ساتھ جو چاہیں معاملہ کریں، لیکن اس نے اللہ کی رضا کی خاطر انہیں معاف کردیا اور دیت پر ہی اکتفا کیا- البتہ عبیداللہ ابن عمرکے پاس دیت ادا کرنے کے پیسے بھی نہ تھے تو حضرت عثمان غنیؓ نےاپنے ذاتی مال سے ان کی دیت ادا کی۔‘‘
جامع القرآن اور مصحف الامام:
سيدنا حضرت عثمان غنی (رض) کی حیات طیبہ اسلام اور مسلمانوں پر احسانات کے کئی واقعات کو سموئے ہوئے ہے- آپؓ کے دور مبارک میں اسلام دنیا کے دوردراز علاقوں تک پہنچ چکا تھا۔ شام کے لوگ حضرت ابی بن کعبؓ کی قرأت کے مطابق قرآن پڑھتے تھے، کوفہ والے حضرت عبداللہؓ بن مسعود کی قرأت کے مطابق جب کہ بعض علاقہ والے حضرت موسیٰ اشعریؓ کی قرأت کے مطابق قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔ حضرت عثمان غنی ؓکو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے امت مسلمہ کو قریشی رسم الخط اور مکہ مکرمہ کی قرأت پر یکجا فرمایا-
حضرت حفصہ (رض) کے پاس سے قرآن کا نسخۂ صدیقی منگوایا گیا، حضرت زید بن ثابت،عبداللہ بن زبیر، سعید بن العاص اور عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام، مالک بن ابی عامر، کثیر بن افلح،ابی بن کعب،انس بن مالک اور عبداللہ ابن عباس (رض) کو مصحف تیار کرنے پر مامور کیا گیا، مصحف سورتوں کے اعتبار سے تیار کروایا گیا۔ اس نسخہ کو مصحف الامام کا نام دیا گیا- بعدازیں اس مصحف کی نقلیں تیار کی گئیں۔
حضرت زید بن حارث خزرجی (رض) کاتبِ وحی ہیں اور حضور خاتم النبیین (ﷺ) آپ سے تواتر سے وحی لکھواتے، آپؓ حضور نبی کریم (ﷺ) اور جبریلِ امین علیہ السلام کے دورۂ قرآن میں بھی موجود تھے، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی آپؓ سے ہی مصحف لکھوایا تھا- آپؓ اگرچہ باقی کبار صحابہ (رض) میں جوان تھے، مگر آپ کی قابلیت کی بنا پر حضرت عثمان غنیؓ نے آپ کا انتخاب فرمایا۔ آپ ؓ قرآن مجید کے پختہ حافظ، اعراب و لغاتِ قرآن کے جید عالم تھے۔ قرآن کی یہ جمع و تدوین مدینہ منورہ میں ہوئی، اس لیے چند کبار صحابہ اس کارِ عظیم میں شریک نہ ہوسکے جیسے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ جو اس دوران کوفہ میں موجود تھے۔ جب مصاحف تیار ہوئے تو انہیں کبار صحابہ کی سند مل جانے کے بعد بلادِ اسلامیہ میں بھجوادیا گیا، بقیہ نسخہ جات کو جن میں شبہ کی گنجائش تھی، کبار صحابہ کے اجتماع و اجماع اور اتفاق سے دفنائے گئے تھے۔ اس حکمت کے پیشِ نظر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا تھا کہ اگر عثمانؓ کی جگہ پر میں حکمران ہوتا تو میں بھی وہی کچھ کرتا جو عثمانؓ نے کیا۔
اتحادِ امت اور وحدتِ قرآن کی حکمت کے پیشِ نظر تمام صحابہ کرام (رض) مصحفِ عثمانی پر متفق و یکجا ہوگئے۔ نیز ابن ابی داؤد نے حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے صحیح سند سے بیان کیا ہے کہ اُنہوں نے فرمایا کہ حضرت عثمانؓ کے متعلق سوائے بھلائی کی بات کے، کچھ نہ کہو۔ اللہ کی قسم! اُنہوں نے جو کچھ کیا، ہمارے مشورے سے کیا۔ امتِ مسلمہ کو قرآن کے ایک مصحف پر جمع کرنے کی وجہ سے آپ (رض) کو جامع القرآن کے لقب سے جانا جاتا ہے۔
جذبہ ایثار اور سیدنا عثمانؓ ابن عفان:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو صاحبِ ثروت فرمایا تھا۔ اسی نسبت آپ کے اسم مبارک کے ساتھ غنی کا لقب بھی لگایا جاتا ہے۔ سخاوت کا عالم یہ تھا کہ مغازی میں آپ کے ایثار کے کئی واقعات موجود ہیں۔ اہل عرب میں سے سب سے زیادہ مویشی آپ کے پاس ہوا کرتے تھے، لیکن جذبۂ ایثار، عدل و انصاف کے اوصاف اور امیر المؤمنین و خلیفۃ المسلمین کی ذمے داری آپؓ نے اس قدر قبول فرمائی کہ اپنے دور خلافت میں آپ کے پاس نہ تو کوئی ذاتی چراگاہ تھی، نہ ہی بھیڑ، بکریاں، اونٹ و دیگر مویشی بلکہ حج کی سواری کے لیے دو اونٹوں کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔
خلیفہ بننے کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنیؓ نے اپنا ذاتی مال و متاع اور زمینوں کو بنوامیہ، بنوعاص، بنوعیص اور بنو حرب میں تقسیم کردیا تھا اور جن مہاجرین و انصار نے فتوحات کے بعد زمینیں حاصل کی تھیں، وہ انہی کے قبضے میں دے دیں تھیں۔ نیز آپؓ نے اپنی ملکیت میں کوئی حصہ بھی نہ رکھا۔
معاملہ خواہ مالِ غنیمت کا ہو خواہ انعام و اکرام کا، آپؓ نے کبھی بھی رعایا کا مال اپنی ذات پر یا اپنے اقربا پر خرچ نہ کیا۔ عالم تو یہ تھا کہ بیت المال سے کبھی بھی اپنی خدمات کے عوض کچھ بھی نہ لیا۔ صلہ رحمی کی خوبی آپؓ میں کثرت سے موجود تھی، اکثر اپنے حصے کے مال سے اپنے غریب رشتہ داروں، ضرورت مندوں اور بیواؤں کی کفالت کیا کرتے تھے۔ مالِ غنیمت کی تقسیم میں برابری سے کام لیا کرتے تھے جب کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق (رض) کی طرح آپؓ نے انعام بھی عطا کیے، لیکن اس میں کسی کو فوقیت نہ دی اور سب کے استحقاق کا خیال رکھا- حضرت عثمانؓ نے حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو لیبیا اور تیونس کے علاقے فتح کرنے پرانعام دینے کا فرمایا تھا اور فتح حاصل کرنے پر مالِ غنیمت کے خمس کا خمس انعام کے طور پر عطا بھی کیا، لیکن پھر بعض ناگزیر وجوہ کے باعث انعام واپس لے کر فوج میں ہی تقسیم کردیا-
بعدازیں آپؓ نے واضح فرمایا کہ یہ ان کا حق تھا جس پر لوگوں نے ہامی بھی بھری- آپؓ نے بیت المال کا نظام نہایت شفاف رکھا ہوا تھا۔ بیت المال کی ذمے داری حضرت زید بن ثابت اور عبداللہ بن ارقم (رض) کے سپرد تھی، لین دین کے معاملات دن میں لوگوں کے سامنے ہوا کرتے تھے اور وہ بھی مشاورت سے کیے جاتے تھے جب کہ سالانہ حساب ہوتا تھا، جسے عوام کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔
دورِ عثمانیؓ کی فتوحات:
حضرت سیدنا عثمان ابن عفان (رض) کا دورِ خلافت ہجرت کے چوبیسویں سال سے شروع ہوتا ہے۔ آپؓ نے کارِ خلافت میں نظامِ حکومت کو بے حد بردباری، عدل و انصاف کی فراہمی اور اسلامی تشریحات کو فوقیت دیتے ہوئے مکمل کیا۔ نیز سب سے پہلے حاکمِ وقت کی حیثیت سے خود پر قوانین اسلام کا مکمل اطلاق کیا، تاکہ والیان و عمال و رعایا وغیرہا کے لیے مشعلِ راہ کا کام کرسکیں۔ یہی نہیں بلکہ عہدِ فاروقیؓ کی پالیسیوں کو بھی برقرار رکھا، کسی قسم کی ذاتی ترمیم نہ کی۔ آپؓ میں سنتِ نبوی(ﷺ) کی پاسداری، سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا حسنِ سلوک اور فاروقِ اعظمؓ کا عدل و انصاف موجود تھا- آپؓ ملتِ اسلامیہ کی وحدت کو برقرار رکھنے اور اسے وسعت دینے میں کوشاں رہے۔ خلافت کے پہلے سال ’’رے‘‘ کا شہر فتح ہوا۔ 26ھ میں شہر سابور فتح ہوا، 27ھ میں بحری رستے کے ذریعے قبرص فتح ہوا (بحری جنگ حضرت عثمانؓ کے دور مبارک سے شروع ہوئی، اس سے قبل خلفاء نے بحری جنگوں کی اجازت مرحمت نہ کی تھی۔ مسلمانوں نے خشکی کی جنگ کی طرح سمندر کے راستے سے بھی دشمنانِ اسلام کا پُرزور مقابلہ کیا اور فتح سے سرفراز ہوئے) اور افریقا میں طرابلس، الجزائز، رقہ، مراکش اور اُندلس (اسپین) فتح ہوئے۔ 29ھ میں اصطخرا، قساء اور چند مزید ممالک فتح ہوئے، 30ھ میں خراسان اور نیشاپور فتح ہوئے۔ فتوحات کا تسلسل چلتا رہا اور ایران کے کئی اور شہر جیسے طوس، سرخس، مرو اور بہیق بھی فتح ہوئے اور 31ھ میں آرمینیا اور آذر بائیجان فتح ہوئے۔ اسی سال قیصر روم پر بحری لشکر کا ایسا زوردار حملہ کرکے انہیں شکست سے دوچار کیا گیا کہ دوبارہ کبھی رومیوں نے بحری حملہ نہ کیا۔
گورنروں کی تقرری کا عمل:
آپ (رض) نے حکام و عمال کی نگرانی میں کبھی کوتاہی نہ برتی۔ اسی ضمن میں سنتِ فاروقیؓ اپناتے ہوئے آپؓ نے ضرورت کے تحت گورنروں کے تبادلے بھی کیے۔آپؓ کا انداز یہ تھا کہ ہمیشہ رعایا کی اکثریت اور ان کی پسندیدگی کو ملحوظِ خاطر رکھتے تھے، جس سے آپ کے دور میں عوام کو موجود آزادی رائے کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ آپؓ کی جانب سے یہ اعلان تھا کہ جس کسی کو کسی گورنر سے شکایت ہو وہ حج کے موقع پر بیان کرے جب کہ گورنروں کو بھی یہی حکم تھا کہ وہ حج میں شریک ہوں۔ آپؓ صوبوں میں معائنہ کی غرض سے وفود بھی بھیجا کرتے۔ خود بھی صوبوں کا سفر فرماتے اور عوام سے ملتے۔ کبھی گورنروں سے کارکردگی رپورٹ بھی طلب فرماتے تھے۔ آپ کے احکامات میں گورنروں کے لیے بالخصوص شامل تھا کہ عوام کو ان سے ملنے میں کسی قسم کی پریشانی نہ پیش آئے۔
آپؓ گورنر کا کبھی بھی عمر کی بنا پر انتخاب نہیں کرتے تھے بلکہ تجربے، عوام میں مقبولیت اور بہترین کارکردگی پر چناؤ کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؓ نے بھی کم عمر گورنر مقرر کیے، بعین اسی طرح جس طرح حضور رسالت مآب (ﷺ) نے قابلیت کی بنا پر حضرت اسامہ بن زیدؓ جیسے کم عمر صحابی کو افسری عطا فرمائی تھی۔ امام بخاریؒ ’’تاریخ الصغیر‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ جہیم الفہری کہتے ہیں کہ اس معاملے کا میں گواہ ہوں حضرت عثمانؓ نے فرمایا: ’’ہر اس شہر کے لوگ کھڑے ہوجائیں جو اپنے گورنر کو ناپسند کرتے ہیں۔ میں اسے معزول کردوں گا اور اس شخص کو گورنر مقرر کروں گا، جسے وہ پسند کریں گے۔‘‘ اہل بصرہ نے کہا: ’’ہم عبداللہ بن عامر سے خوش ہیں۔‘‘حضرت عثمانؓ نے انہیں مقرر کیے رکھا۔ اہل کوفہ نے کہا: ’’سعید بن عاصؓ کو ہٹاکر ابو موسیٰ الاشعریؓ کو مقرر کردیجیے۔‘‘ حضرت عثمانؓ نے ایسا ہی کیا۔ اہل شام نے کہا: ’’ہم معاویہ ؓ سے خوش ہیں۔‘‘ حضرت عثمانؓ نے انہیں برقرار رکھا۔ اہل مصر نے کہا: ’’ابن ابی سرح کو ہٹاکر عمرو بن عاصؓ کو مقرر کیجیے۔‘‘ نیز حضرت عثمانؓ نے ایسا ہی کیا۔
تاریخ کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان غنیؓ نے عہدِ فاروقیؓ میں کی گئی تقرریوں میں قابلیت کی بنا پر تبادلے کیے، صرف ایک اموی گورنر اپنے دور میں خود سے فائز کیا۔ وہ حضرت عبداللہ بن عامرؓ ہیں۔ آپؓ نہایت سادہ طبیعت، صالح شخصیت کے حامل اور زہد و تقویٰ میں کمال رکھتے تھے۔ بصرہ کے گورنر مقرر ہونے کے بعد آپ نے فتوحات کا سلسلہ ایسا بڑھایا کہ اس دور میں سب سے زیادہ فتوحات آپ کے حصے میں ہی آئیں۔ حضرت عثمانؓ کے دور میں آپ کے خاندان کے چند افراد جن میں حضرت ولید بن عقبہ، حضرت عبداللہ بن سعد، حضرت سعید بن عاص اور حضرت سیدنا امیرمعاویہ (رض) شامل ہیں، کو حضرت عمر فاروقؓ افسر شاہی میں داخل کرچکے تھے اور ان تمام افراد نے اپنی بہترین کارکردگی کے باعث حضرت عثمانؓ کے دور میں ترقی حاصل کی تھی۔
حضرت سیدنا عثمان غنیؓ کی عدل شناسی ایسی تھی کہ ایک دفعہ حضرت سعدبن ابی وقاصؓ جن کے ذمے کوفے کے معاملات تھے۔ انہوں نے بیت المال سے ذاتی ضروریات کے لیے قرض لیا، جسے وقت پر ادا نہ کرسکے۔ بیت المال کے سربراہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے مطالبہ ادائیگی پر مزید مہلت طلب کی، لیکن مکالمہ تلخی کی جانب مبذول ہوگیا۔ نتیجتاً حضرت سیدنا عثمانؓ نے آپؓ کو مدینہ بلوالیا اور کوفہ کے بجائے دارالحکومت میں ذمے داریوں پر مامور فرمادیا۔ حضرت سعدؓ کی جگہ حضرت ولید ؓبن عقبہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کردیا۔
تاریخ گواہ ہے کہ ولیدبن عقبہ نے کبھی بھی اپنی ذمے داریوں میں کوتاہی نہ کی۔ حضرت سیدنا صدیقِ اکبرؓ اور فاروق اعظمؓ نے آپ کو اہم امور سونپے جو آپؒ نے مکمل ذمے داری سے نبھائے۔ کوفے کی گورنری کے بعد عالم یہ تھا کہ پانچ سال تک گھر میں دروازہ نہ لگایا، تاکہ عوام گورنر سے ملنے، اپنی بات پہنچانے میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہ کرپائے۔ ان کی خدمات اور بہترین کارکردگی کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ لوگوں کے دلعزیز گورنر بن گئے تھے، لیکن چند شرپسندعناصر نے آپ کے گھر میں دروازہ نہ ہونے کی وجہ سے آپ کی انگوٹھی چرالی اور حضرت عثمانؓ کے پاس حاضر ہوگئے کہ ولید بن عقبہ بادہ نوشی کرتے ہیں اور انہیں اس حال میں اپنی انگوٹھی کا ہوش بھی نہ رہا۔ البتہ حضرت عثمانؓ نے آپ کو طلب فرمایا، صبر کی تلقین کی، جھوٹے گواہوں کے لیے جہنم کی وعید سنائی، عدالت نے حضرت ولید بن عقبہ پر شراب کی سزا نافذ کی اور آپ کو عہدے سے سبکدوش کردیا گیا۔ یہی شر پسند کوفی لوگ حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کے عہد میں بھی حضرت مغیرہ بن شعبہؓ پر بدکاری کی تہمت لگواکر انہیں معزول کروانے کی کوشش کرچکے تھے۔ حضرت عثمان غنی (رض) نے اسی طرح دیگر گورنروں کے بھی تبادلے کیے اور ہر تبادلہ انصاف کے میزان میں پورا اترتا تھا جس پر سند اور تاریخ گواہ ہیں۔
رفاہِ عامہ اور دورِ عثمانی:
حضرت سیدنا عثمان غنی ؓ نے ہمیشہ امت کی منفعت کو پیشِ نظر رکھا- نیز خدماتِ عامہ میں بھی فرد کے بجائے امت کا نفع ملحوظِ خاطر رکھتے تھے۔
آپؓ کی حیاتِ طیبہ میں سیکڑوں واقعات رفاہِ عامہ کے موجود ہیں، خواہ دورِ نبوی (ﷺ) ہو یا آپؓ سے ماقبل خلفاء کا دور ہو، آپؓ نے عوام کی سہولت کے لیے دل و جان سے خدمات کیں اور لوگوں کو نفع پہنچانے کی کوششیں کیں۔ اپنے دورِ خلافت میں آپؓ نے گھوڑوں اور اونٹوں کے لیے وسیع چراگاہیں بنائیں۔ ربذہ، نقیع اور ضربہ کے مقامات پر وسیع چراگاہوں کا قیام عمل میں آیا، نیز ہر چراگاہ کے قریب چشمے تیار کرائے گئے اور چراگاہوں کے منتظمین کے لیے مکانات بھی تعمیر کرائے۔ آپؓ نے مختلف حکومتی محکموں کو مزید منظم کرکے ترقی دی، آپ کی دوررس نگاہ اور کاوشوں کا ثمر یہ ہوا کہ حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں مصر کا خراج 20 لاکھ دینار تھا، جو آپ کے دور میں 40 لاکھ تک پہنچا۔
آپؓ نے مدینہ کے راستہ میں جگہ جگہ چوکیاں، سرائے اور چشمے تعمیر کروائے۔ ایک مختصر بازار بھی لگایا گیا جب کہ بیرالسائب نامی میٹھے پانی کا کنواں بھی لگوایا۔ مدینہ سے کچھ فاصلے پر مدری کے مقام پر ایک بند بندھوایا اور نہر کھدوائی تاکہ خیبر کے راستے سے آنے والے سیلاب کا رخ دوسری طرف موڑ دیا جائے۔ اس بند کا نام بند مہزور ہے۔
آپ کے دور میں جس خوبصورتی سے مسجد الحرام اور مسجد النبوی (ﷺ) کی تعمیر و توسیع ہوئی وہ آپ کے دور سے پہلے نہ ہوئی۔ آپؓ مستحق کو عطا فرماتے اور مقروضوں کا قرض بھی معاف فرمادیتے، نیز غیرآباد علاقوں پر بے روزگاروں کو کاشت کاری کا حکم فرماکر انہیں روزی کے مواقع فراہم کرتے اور ملکی آمدن میں اضافے کا سبب بھی مہیا کرتے تھے۔
شہادتِ ذوالنورین (رض):
حضرت سیدنا عثمان ابن عفانؓ کے عہد کے نصف ثانی میں فتنے بپا ہونے لگے۔ منافقین اور منکرینِ اسلام آپ کے خلاف پروپیگنڈا اور سازشیں رچانے لگے۔ آپؓ مصالحت سے تمام معاملات حل کرتے رہے، لیکن بیرونی و اندرونی سازشوں نے اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کردیں اور آپ کو خلیفہ کے عہدے سے دستبردار ہونے کا مطالبہ ہونے لگا۔
نیز حج کے مہینے میں جب اکثر صحابہ کرام حج ادا کرنے گئے ہوئے تھے، ان لوگوں نے آپؓ کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضور رسالتِ مآب (ﷺ) نے فتنوں کے متعلق گفتگو فرمائی تو حضرت عثمانؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک فتنے میں یہ مظلوم بھی شہید کیے جائیں گے۔
آپؓ کو حضور رسالتِ مآب (ﷺ) کی پیش گوئی یاد تھی، اس لیے صحابہ کرام سے محاصرین سے جنگ کا حکم نہ فرمایا، 40 دن تک آپ کے گھر کا محاصرہ کیے رکھا گیا، کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی تک روک دی گئی۔ نیز جب حضرت علیؓ کو اس کا علم ہوا تو سخت برہم ہوئے اور فوراً پانی کے دو مشکیزے بھجوائے لیکن محاصرین نے مشکیزے آپؓ کے گھر تک نہ پہنچنے دیے۔ روایت میں ہے کہ کسی حماد نامی مصری دوسرے گھر کی چھت پھلانگ کر آپ کے گھر میں چپکے سے داخل ہوا اور آپ کو شہید کردیا۔ آپؓ نے بارہ سال خلافت کی اور ماہ ذی الحجہ 35ھ میں روزہ کی حالت میں آپ کی شہادت واقع ہوئی-