حافظہ عاٸشہ ذیشان
جہاد اسلام کی بنیادوں میں سے ایک خاص بنیاد ہے، جس کے بغیر تمام بنیادیں کھوکھلی معلوم ہوتی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے سورہ توبہ، سورہ انفال، سورہ احزاب، سورہ محمد، سورہ فتح، سورہ صف اور متعدد سورتوں کی آیات میں جہاد کی اہمیت اور اس کی فرضیت کی حالتوں کو بیان فرمایا ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں مجاہدین کے گھوڑوں کی قسمیں کھائی ہیں اور ساتھ ساتھ فرشتوں کی مدد اور ان کے نزول کی بشارتیں بھی سنائی ہیں۔ اللہ رب العزت نے جہاں شہیدوں کے مراتب بیان فرمائے ہیں، وہیں غازیوں کے درجات بھی بتائے ہیں۔ شہید کے زندہ ہونے کی گواہی دی ہے، جس پر بحیثیت مسلمان ہمارا کامل ایمان ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے محبت ہمارے لیے دنیا کی ہر نعمت سے بڑھ کر ہے اور یہی ہمارے ایمان کی پختگی اور بقا کی علامت ہے۔
آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں غزوات میں شرکت فرمائی اور علم دین کو بلند فرمایا اور کچھ مہمات میں بذات خود شرکت نہ فرمائی، جنہیں سریہ کہا جاتا ہے۔ ان کی قیادت کے لیے کسی صحابی کو متعین فرمایا۔ ان دو طرح کے غزوات سے قریباََ ہم سب ہی واقف ہیں، لیکن آج ہم بات کریں گے غزوات موعودہ کی جن سے مراد وہ جنگیں ہیں جو قرب قیامت تک واقع ہوں گی اور ان کی خبر آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی دے دی تھی۔
ان میں غزوہ ہند قابل ذکر ہے۔ اگر ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو غزوہ ہند کا آغاز خلفائے راشدین کے عہد سے ہوا جو مختلف مراحل سے گزرتا ہوا آج بھی جاری ہے اور قرب قیامت تک جاری رہے گا۔ غزوہ ہند کا تعلق غزوات کی دوسرے قسم غزوہ موعودہ سے ہے، جس کی پیش گوئی آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ظاہری حیات مبارکہ میں فرمادی تھی۔ اس غزوے کا مرکز ہندوستان ہے جو برصغیر پاک و ہند کی علیحدگی کے بعد ہندوؤں کے زیر تسلط ہے۔ اہل اسلام مسلمان اور ہندوؤں کے مابین ہونے والی اس لڑائی کا نتیجہ اہل اسلام کی فتح کی صورت میں ہوگا۔
احادیث مبارکہ میں غزوہ ہند سے متعلق بیان ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے غزوہ ہند کے بارے میں وعدہ فرمایا تھا۔ سو اگر میں شہید ہوگیا تو بہترین شہیدوں میں سے ہوں گا اگر واپس آگیا تو میں جہنم کی آگ سے آزاد ابوہریرہ ہوں گا۔ (مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر7128) یہی حدیث سنن نسائی میں بھی موجود ہے کہ مسلمان ہندوستان میں جہاد کریں گے۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں ذکر ہے کہ ضرور تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا، اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائیں گے، یہاں تک کہ وہ ان ہندوؤں کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے اور اللہ ان کی مغفرت کرے گا۔ پھر جب مسلمان واپس جائیں گے تو عیسیٰ ابن مریم کو شام میں پائیں گے۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت ثوبان فرماتے ہیں کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، میری امت کے دو گروہوں کو اللہ دوزخ کے عذاب سے بچائے گا۔ ان میں سے ایک ہندوستان میں جہاد کرے گا اور دوسرا حضرت عیسیٰ کے ساتھ ہوگا (سنن نسائی حدیث نمبر 4384 )۔
کہا جاتا ہے کہ ہند پر مہم جوئی کا آغاز حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں ہوا۔ 23 ہجری میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔ حضرت عثمان کے دور خلافت میں 29 ہجری میں مسلمان بلوچستان کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے پھر محمد بن قاسم کے ذریعے اس غزوے کا آغاز ہوا، جنہوں نے اپنے لشکر کے ساتھ سندھ کو فتح کیا۔ محمد بن قاسم کے بعد احمد شاہ عبدالی نے لاہور کو فتح کیا۔ ان کے بعد اگر تاریخ کا رخ کریں تو سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر 17 حملے کیے اور پشاور تا لاہور اسلام کا پرچم سربلند کیا۔ پھر حیدر علی نے اپنے 20 سالہ دور میں دریائے مالہبار سے لے کر دریائے کرشنا تک ایک بہت بڑی ریاست قائم کی، یہ میسور کی پہلی جنگ تھی۔ دوسری جنگ میں انہوں نے انگریزوں کی حکومت کا خاتمہ کیا لیکن ان کی سانسیں وفا نہ کرسکیں اور وہ اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ ان کے بعد ان کے بیٹے ٹیپو سلطان جانشین بنے، انہوں نے بھی ڈٹ کر انگریزوں کا مقابلہ کیا لیکن غدار وطن اور غدار اسلام لوگوں کی وجہ سے جام شہادت نوش کیا۔
اگر ہم مزید آگے بڑھیں تو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ہونے والی ساری جنگیں اسی میں شمار ہوں گی جب تک مسلمانوں کا گروہ ہندوستان کے بادشاہوں کو بیڑیاں پہنا کر حضرت عیسیٰ سے ملاقات نہ کرلے۔ وہ وقت ہمیں ہمیشہ یاد رہے گا جب مسلمانوں پر اللہ رب العزت نے سب سے بڑا انعام فرمایا، وہ وقت 27 رمضان المبارک ہے، جب پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کی اساس اور بنیاد روحانی ہے۔ جس کا اقرار قائداعظم محمد علی جناح بھی کرچکے ہیں۔
اگر 1965 کی جنگ کی بات کی جائے تو بھارت نے رات کی تاریکی میں پاکستان کے شہر لاہور پر تین اطراف سے حملہ کیا، لیکن رینجرز کے جوانوں نے نہ صرف جان کے نذرانے پیش کیے بلکہ بی آر بی نہر کا پل تباہ کرکے دشمن کا لاہور پہنچنا ناممکن بنادیا۔ ٹکا خان نے سیالکوٹ کو اپنی ہمت و بہادری سے بچایا۔ پاک فضائیہ بھی کسی سے کم نہ تھی، اس 17 روزہ جنگ میں بھارت کے دس طیارے تباہ کیے۔ سات ستمبر کو بحریہ نے اپنے ساحل کا دفاع کیا اور صرف ساڑھے چار منٹ میں اپنے مطلوبہ ہدف تباہ کیے اور دشمن کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا۔ 1965 کی جنگ میں بہت سے روحانی واقعات رونما ہوئے، جنہیں ممتاز مفتی اپنی کتاب لبیک میں درج کرتے ہیں کہ جب 1965 کی جنگ شروع ہوئی تو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اللہ کے نیک بندوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اور دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جنگی لباس میں اصحاب بدر کے ساتھ پاکستانی فوج کی مدد کے لیے تشریف لے جارہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ پاکستان پر حملہ ہوا ہے ہمیں اس کا دفاع کرنا ہے۔ ایک اور شخص نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خواب میں دیکھا کہ وہ مجاہدین میں اسلحہ تقسیم فرما رہے ہیں۔ بزرگان دین بھی گھوڑے پر سوار ہو کر دشمن سے لڑرہے تھے۔ سفید لباس میں جوان گولوں کو واپس دشمن کی طرف پھینک دیتے۔ یاد رہے کہ اس جنگ میں پاک فوج کی قیادت میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کررہے تھے جو میجر شبیر شریف اور راحیل شریف کے ماموں تھے۔ اسی طرح 1999 میں بھی پاکستانی افواج دشمن کے دانت کھٹے کرچکی ہیں۔ یہ تمام غزوہ ہند کی کڑیاں ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دنیا میں دوبارہ تشریف لانے تک چلتی رہیں گی اور اس وقت پایہ تکمیل کو پہنچیں گی۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمارے وطن کی حفاظت فرماٸیں اور ہمیں شہادت نصیب فرماٸیں۔ (آمین)