ربیع الاول کا مبارک مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے۔ یہ نبی آخر الزماں حضور ﷺ کی ولادت کی مناسبت سے مسلمانوں کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس مہینے جشن ولادت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ محافل نعت و اذکار کا انعقاد بہ کثرت کیا جاتا ہے، جن میں مسلمان بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ ہر سُو نبی محترمؐ کی شان میں نعتوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ نعت نبی کریمؐ کے حضور ہدیہئ عقیدت پیش کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ نعت لکھنے کا آغاز حضور ﷺ کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا اور اُس زمانے کے بڑے نعت گو شاعر گزرے ہیں، جن میں حسان بن ثابت، اسود بن سریع، عباس بن عبدالمطلب، کعب بن زبیر، عبداللہ بن رواحہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ یہ حضرات مسجد نبوی میں بیٹھ کر حضور ﷺ کی شان میں اشعار سنایا کرتے تھے اور حضور ﷺ سماعت فرماکر اچھے اشعار پر پسندیدگی کا اظہار کرتے تھے۔ صدیاں بیت گئیں، نبی کریمؐ سے عقیدت و محبت کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مختلف زمانوں اور مختلف زبانوں میں شعرا حضور ﷺ کی شان میں ہدیہئ نعت پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔ نعت گوئی عربی زبان سے فارسی، پھر فارسی سے اردو میں منتقل ہوئی۔ اگرچہ نعت گوئی ایک نازک ترین فن ہے، اس کے باوجود اردو زبان میں نعت کا دامن خاصا وسیع ہے۔
قارئین کے لیے یہ امر خوش گوار حیرت سے کم نہیں ہوگا کہ نعت گو شعرا کا دائرہ اثر صرف مسلمانوں تک محدود نہیں، ایسے غیر مسلم شعرا سیکڑوں کی تعداد میں ہیں جنہوں نے آقائے دوجہاں ؐ کی بارگاہ میں نعت کی صورت گل ہائے عقیدت پیش کیے اور اُن کا کلام قبول عام قرار پایا۔ غیر مسلم شعرا کی نعتوں کو جمع کرنے کی سب سے پہلے کوشش مشہور شاعر مرحوم والی آسی نے کی تھی اور اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ یوں تو اردو میں غیر مسلم نعت گو شعرا کی تعداد کئی سو تک پہنچتی ہے، لیکن نور میرٹھی نے جو کتاب ”بہ ہر زماں بہ ہر زباں“ مرتب کی، وہ بہت اہمیت کی حامل ہے، اس میں انہوں نے 336 ہندو شعرا کی نعتوں کو یک جا کیا ہے۔
قابل ذکر نعت گو اردو شعرا میں جگن ناتھ آزاد، جگن ناتھ کمال کرتار پوری، فراق گورکھپوری، دلو رام کوثری، آنند موہن زتشی، ستیا پال آنند، عرش ملسیانی، شنکر لال ساقی، ہری چند اختر، اشونی کمار اشرف، اوما شنکر شاداں، امر ناتھ آشفتہ دہلوی، برج نارائن کیفی، بالا سہائے متصدی، بھگوت رائے راحت کاکوروی، بہادر برق، تربھون شنکر عارف، پربھو دیال رقم، تلوک چندر محروم، رویندر جین چاند بہاری لال ماتھر صبا، پیارے لال رونق، تربھون ناتھ دہلوی، چندر بھان خیال، چندی پرشاد شیدا،چندر پرکاش جوہر بجنوری، درگا سہائے سرور، دیا پرساد غوری، دیا شنکر نسیم لکھنوی، روپ چند، شگن چند جین روشن، شیو پرشاد وہبی لکھنوی، کرشن موہن، کشن پرشاد، گلزار دہلوی، گوہر دہلوی، لبھو رام جوش ملسیانی، لچھمی نرائن سخا، مکھن لال مکھن، مہر لال سونی ضیا، ہری مہتا ہری، مہندر سنگھ بیدی، نوبت رائے نظر شامل ہیں۔ یہ مختصر سی تحریر تمام غیر مسلم نعت گو شعرا کے تذکرے مع اُن کے کلام کی تو متحمل نہیں ہوسکتی، تاہم ذیل چند قابل ذکر شاعروں کا مختصر تعارف مع اُن کے نعتیہ شعروں کے ساتھ پیش خدمت ہے۔
فراق گورکھپوری اردو کے بڑے شاعر اور نقاد گزرے ہیں، جن کا اصل نام رگھوپتی سہائے تھا۔ آپ کے والد منشی گورکھ پرشاد بھی شاعر تھے، اُن کا تخلص عبرت تھا۔ اُنہیں اردو شاعری کا بڑا نقاد بھی تصور کیا جاتا تھا۔ اس ضمن میں اُنہوں نے ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ فراق نے بھی نبی محترم کی شان میں کلام پیش کیا، اشعار ملاحظہ فرمائیے:
انوار بے شمار معدود نہیں
رحمت کی شاہراہ مسدود نہیں
معلوم ہے تم کو محمدؐ کا مقام
وہ امت اسلام میں محدود نہیں
منشی شنکر لال ساقی 1820 میں سکندر آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ غالبؔ اور مومنؔ کے ہم عصر تھے۔ بہادر شاہ ظفر کے مشاعروں میں شرکت کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں آپ نے طبع آزمائی کی۔ آپ کے دل میں نبی محترم ﷺ کے لیے خاص عقیدت تھی، اس لیے آپ کی شان اقدس میں نعتیں لکھیں۔ آپ کے چند نعتیہ اشعار پیش کیے جارہے ہیں۔
جیتے جی روضہئ اقدس کو نہ آنکھوں نے دیکھا
روح جنت میں بھی ہوگی تو ترستی ہوگی
نعت لکھتا ہوں مگر شرم مجھے آتی ہے
کیا مری ان کے مدح خوانوں میں ہستی ہوگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھی شب معراج میں سارے فلک پر چاندنی
نورِ محبوب خدا سے تھی منور چاندنی
عرش و کرسی پر کہاں تھا ماہ کا نام و نشاں
روئے احمد چاند تھا، اس سے تھی یکسر چاندنی
۔۔۔۔۔۔۔۔
کنور مہندر سنگھ بیدی، تخلص سحر تھا، 9 مارچ 1909 کو منٹگمری (ساہیوال) میں پیدا ہوئے۔ آپ کثیر الجہات شخصیت کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ 60 برس تک شاعری کی۔ ان تمام مشغلوں میں شاعری میں وہ کسی کے شاگرد نہیں تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں حضرت محمد ﷺ اور اہل بیت کی شان میں بھی بہت عمدہ خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ کلام ملاحظہ فرمایئے:
ہم کسی دین سے ہوں، قائلِ کردار تو ہیں
ہم ثناء خوانِ شہِ حیدرِ کرارؓ تو ہیں
نام لیوا ہیں محمدؐ کے پرستار تو ہیں
یعنی مجبور پئے احمد مختار تو ہیں
عشق ہوجائے کسی سے، کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں
ہری چند اختر 1901 میں ہوشیار پور پنجاب میں پیدا ہوئے۔ پندرہ سال کی عمر سے ہی شاعری کا شوق ہوا اور حفیظ جالندھری سے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔ شاعر ہونے کے ساتھ اچھے صحافی بھی تھے۔ آپ کی دو نعتیں ”ایک عرب“ اور ”سبز گنبد“ نبی محترم ﷺ سے گہری عقیدت کو ظاہر کرتی ہیں۔ چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
سبز گنبد کے اشارے کھینچ لائے ہیں ہمیں
لیجیے دربار میں حاضر ہیں اے سرکار ہم
یاالٰہی کس طرف کو ہے مرا عزمِ سفر
خضر کہتے ہیں کہ ساتھ آئیں ذرا سرکار ہم
نام پاک احمد مرسل سے ہم کو پیار ہے
اس لیے لکھتے ہیں اختر نعت میں اشعار ہم
جگن ناتھ آزاد 1918 کو عیسیٰ خیل میانوالی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی شاعری کی طرف میلان تھا۔ اُردو کے بڑے شاعروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ آزاد نے بارگاہِ رسالت میں گل ہائے عقیدت نعتیہ شاعری کی شکل میں پیش کیے۔ آپ نے حضور ﷺ کی شانِ اقدس پر بہت کچھ لکھا۔ نمونہ کلام پیش خدمت ہے۔
سلام اس ذاتِ اقدس پر، سلام اس فخرِ دوراں پر
ہزاروں جس کے احسانات ہیں دنیائے امکاں پر
سلام اُس پر جو حامی بن کے آیا غم نصیبوں کا
رہا جو بے کسوں کا آسرا، مشفق غریبوں کا
آنجہانی چیف جسٹس آف پاکستان رانا بھگوان داس کی منصف کی حیثیت سے ملک و قوم کے لیے بے شمار خدمات ہیں۔ وہ بااصول شخصیت کے مالک تھے اور نظام عدل کی بہتری، آئین و قانون کی سربلندی کی خاطر اُن کی کاوشیں کسی طور فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ وہ اسلام اور خصوصاً نبی محترم ﷺ سے خاص عقیدت رکھتے تھے۔ اسی لیے اُنہوں نے باقاعدہ قرآن شریف کی تعلیم حاصل کی۔ اُن کی نعت پیش خدمت ہے۔
جمالِ دو عالم تری ذاتِ عالی
دو عالم کی رونق تری خوش جمالی
خدا کا جو نائب ہوا ہے یہ انسان
یہ سب کچھ ہے تری ستودہ خصالی
تُو فیاضِ عالم ہے دانائے اعظم
مبارک ترے در کا ہر اِک سوالی
نگاہِ کرم ہو نواسوں ؑ کا صدقہ
ترے در پہ آیا ہوں بن کے سوالی
میں جلوے کا طالب ہوں، اے جان عالم!
دکھادے، دکھادے وہ شانِ جمالی
ترے آستانہ پہ میں جان دوں گا
نہ جاؤں، نہ جاؤں، نہ جاؤں گا خالی
تجھے واسطہ حضرتِ فاطمہؓ کا
میری لاج رکھ لے دو عالم کے والیؐ
نہ مایوس ہونا ہے یہ کہتا ہے بھگوانؔ
کہ جودِ محمدؐ ہے سب سے نرالی