آوارہ کتوں کے معاملے میں تو صوبہ سندھ خود کفیل ہی تھا لیکن اب تو ملک کے سب سے بڑے شہر میں پالتو کتے بھی شیر بن گئے ہیں۔
یہ انیس سو ستر کی دہائی کے اوائلی برسوں کا ذکر ہے کہ ہم چھوٹے سے شہر میں رہتے تھے اور ہماری نانی نہر کنارے گھنے جنگلات کے پہرے میں ایک چھوٹے سے گائوں میں رہتی تھی۔ باندھی شہر سے چار کلومیٹر کے فاصلے موجود گائوں سے نانی جب ہم سے ملنے شہر آتی تھی تو ایک ہٹا کَٹا کتا بھی نانی کے ساتھ پیدل چل کر شہر آتا تھا۔ نانی جہاں بھی جاتی تھی کتا اس کے پیچھے۔ ہم بچے اس کتے سے بہت ہی ڈرتے تھے لیکن نانی کہتی تھی بچو ڈرو مت۔ یہ کُتا کسی کو نہیں کاٹے گا یہ میرا کتا گائوں میں ہماری بکریوں کی حفاظت کرتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہماری نانی اگر سودا الف لینے کے لئے شہر سے گذرتی تھی تو وہ کتا بھی ان کے پیچھے پیچھے چلتا تھا۔ گویا کتا نہ ہوا نانی کا باڈی گارڈ ہوا۔ شاید اس لئے ہی لوگ کتے کو وفادار جانور کہتے ہیں۔ انسان جب سے جنگلات میں زندگی بسر کرتا تھا شاید تب سے پالتو کتے رکھنے کا سلسلہ شروع ہوا ہوگا اور جب سے انسان نے شہر بنائے اور شہروں میں رہنے لگا، شاید دیگر جانوروں کی طرح پالتو کتے بھی رکھتا ہوگا۔ شہروں میں پالتو کتوں کی تاریخ تو نہ جانے کب سے شروع ہوتی ہے لیکن جب سے انسانوں نے شہروں میں وفا چھوڑدی تو دیکھتے دیکھتے کتے بھی بے وفا جانور بننے لگے۔
ابھی چند روز قبل کراچی کے سب سے بڑے پوش علاقے ڈیفینس میں پالتو کتوں نے ایک معزز شہری پر حملہ کردیا اور اسے بھنبھوڑ ڈالا۔ یہ کوئی عام شہری نہیں بلکہ قانون دان ہے۔ درخشان تھانے میں گذشتہ گذشتہ روز شہر کے معروف وکیل 72 سالہ مرزا اختر کی مدعیت میں درج ایف آئی آئی آر کے مطابق وہ اپنے گھر کے باہر سولہ جون کو صبح واک کر رہے تھے کہ کتوں کو بغیر رسی کے گھمایا جا رہا تھا اور کتوں نے ان پر حملہ کردیا۔ کتے گھمانے والے دونوں افراد فرار ہوگئے۔ انہوں نے مجھے نہ کتوں سے بچانے کی کوشش کی اور نہ مجھے اسپتال پہنچایا۔ ایف آئی آر میں کتوں کے مالک اور دونوں ملازمین کو نامزد کیا گیا ہے۔
درخشان پولیس کے مطابق دونوں ملازمیں کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور کُتوں کے مالک ہمایوں خان نے ضمانت کرا لی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ ہمایوں خان ریٹائرڈ پولیس افسر ہے اور اس کے خونخوار کتوں نے اس سے قبل بھی شہریوں پر حملے کیے ہیں۔ اس واقعے کی سی سی ٹی وی وڈیو بھی منظر عام پر آگئی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایڈوکیٹ اختر مرزا کو پالتو کتوں نے شدید زخمی کردیا اور ان کا خون بہہ رہا ہے کسی دوسرے شہری نے زخمی وکیل کو اسپتال پہنچایا جو ابھی تک کلفٹن کے نجی اسپتال میں زیر علاج ہے۔ اگر بات صرف آوارہ کتوں کی ہوتی یا سندھ کے شہروں کی میونسپل انتظامیہ کی ہوتی تو اس کو کتا خواری ہی کہا جاتا، کیونکہ گذشتہ برس سندھ کے کتوں نے پورے ملک کے کتوں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا اور سال 2020 میں دو لاکھ افراد کو کاٹنے کا ریکارڈ قائم قائم کیا۔
مان لیا جائے کہ دیہات اور چھوٹے شہروں میں کتے بھوکے پیاسے ہوں گے یا ان پر بلدیاتی اداروں کی کرم فرمائی زیادہ ہوگی لیکن شہر کراچی کے امیر باسیوں کے علاقے میں امیر کتوں کو کنٹرول کون کرے گا۔ شہر کراچی میں ساحل سمندر سمیت مختلف پوش علاقوں میں لوگ اپنے تگڑے قسم کے پالتو کتوں کو اپنے ساتھ لیے گھوم رہے ہوتے ہیں۔ یہ کتے دیکھنے میں بڑے خون خوار لگتے ہیں پھر اگر ایسے کتوں کے گلے میں نہ رسی ہو نہ زنجیر ہو اور نہ پٹہ ہو تو یہ بہت ہی خطرے کی بات ہے۔ آوارہ کتوں کے خاتمے کے لئے تو حکومت سندھ نے ایک پروجیکٹ شروع کیا ہوا ہے جس کے تحت کتوں کو زہر دے کر مارنے کے بجائے دیگر اقدامات کے ذریعے ختم کرنے کے اقدامات کیے ہیں لیکن سندھ کے شہر شہر میں آوارہ کتوں کے کاٹنے کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں، لیکن شہر کراچی میں پالتو کتے آوارہ کتوں سے بھی بازی لے گئے ہیں اور انتظامی سطح پر پالتو کتوں کے حوالے سے انتظامیہ کے پاس کوئی جواب نہیں۔ اختر مرزا تو ایک وکیل ہیں ان کا مقدمہ بھی درج ہوگیا لیکن اس سے قبل ہونے والے واقعات میں مذکورہ کتوں کے با اثر مالک نے متاثرین کو دھمکیاں دے کر خاموش کرادیا۔
مذکورہ واقعے کے بعد وکیل پر حملہ کرنے والے خونخوار دونوں کتوں کو پولیس نے تحویل میں لے کر کتے پیٹ کیئر کے حوالے کردیا ہے۔ ایس ایس پی ساؤتھ زبیر شیخ نے اس حوالے سے بتایا کہ عدالتی معاملہ ختم ہونے تک کتے مالکان کے حوالے نہیں کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کتوں کو باقاعدہ انسانوں سے برتاؤ کی تربیت دی جائے گی۔ پیٹ کیئر بھیجنے سے قبل کتوں کو سیفٹی ماسک پہنائے گئے تاکہ یہ کسی پر حملہ نہ کر سکیں۔ پالتو جانوروں کے بارے میں سندھ وائلڈ لائیف ایکٹ موجود ہے۔ محکمہ جنگلی حیات کے علاوہ محکمہ لائیو اسٹاک کے قوانین میں بھی شدّ و مد کے ساتھ پالتو جانوروں کا ذکر موجود ہے۔
اس سلسلے میں محکمہ جنگلی حیات کے چیف کنزرویٹر جاوید احمد مہر سے رابطہ کرنے پر انہوں نے وائس آف سندھ کو بتایا کہ لائیو اسٹاک کے قانون میں ہر پالتو جانور کے بارے میں واضح لکھا ہوا ہے اور کوئی پالتو جانور اگر کسی کو نقصان پہنچاتا ہے تو سی آر پی سی کے تحت مقدمہ ہو سکتا ہے۔ جاوید مہر نے بتایا کہ کسی بھی قانون میں یہ کہیں بھی نہیں لکھا ہے کہ پالتو جانوروں کو اسی طرح آزاد چھوڑا جائے کہ وہ کسی کو نقصان پہنچائیں۔ دیکھا جائے تو شہر کراچی میں صرف کتے پالنا ہی نہیں لیکن دیگر خطرناک جانوروں کو پالنے کا شوق بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ شیر اور چیتے جیسے خطرناک جانوروں کو بھی لوگ گھروں میں پالتے ہیں۔ لیکن ایسے جانوروں کو سرعام شہری آبادیوں میں لے کر گھومنا ممنوع ہے دیگر صورت میں ذمے دار مالکان کو ہی ٹھہرایا جائے گا۔