اسلام آباد: عدالت عالیہ اسلام آباد نے خاتون جج کو دھمکیاں دینے سے متعلق توہین عدالت کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کی، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، ان کے وکیل حامد خان اور دیگر وکلا عدالت میں موجود تھے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو توہین عدالت کیس میں معافی کا موقع دیا لیکن عمران خان نے ایک بار پھر غیر مشروط معافی مانگنے سے گریز کرتے ہوئے دھمکی دینے کے اپنے الفاظ پر پچھتاوے کا اظہار کیا۔
آج دوران سماعت چیف جسٹس اسلام ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اظہار رائےکی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دے سکتے، دوران سماعت عدالتی معاونین مخدوم علی خان اور منیر اے ملک نےعمران خان پرتوہین عدالت کاکیس ختم کرنے کی رائے دی۔
دلائل سننے کے بعد عدالت نے توہین عدالت کی کارروائی سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا، عدالتی کارروائی میں 5 منٹ کا وقفہ کیا گیا جس کے بعد چیف جسٹس اطہر من اللہ نے محفوظ فیصلہ سنایا۔
فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہم عدالتی معاونین کے مشکور ہیں ، دو ہفتے بعد 22 ستمبر کو عمران خان پر فرد جرم عائد کی جائے گی، عمران خان کا جواب تسلی بخش نہیں۔
ج دوران سماعت چیف جسٹس اسلام ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اظہار رائے کی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دے سکتے، دوران سماعت عدالتی معاونین مخدوم علی خان اور منیر اے ملک نےعمران خان پر توہین عدالت کا کیس ختم کرنے کی رائے دی۔
عمران خان کے وکیل حامد خان نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ گزشتہ سماعت کی عدالتی آبزرویشن سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، عدالت کے سامنے مختصر گزارشات رکھنا چاہتا ہوں، ہم یہ معاملہ ختم کرنا چاہتے ہیں، عدالت نے ایک اور موقع دیا جس پر تفصیلی جواب داخل کرادیا ہے، 21 اگست کی عدالتی آبزرویشن پر تفصیلی جواب داخل کیا۔
حامد خان کا کہنا تھا عدالت نے سپریم کورٹ کے دو فیصلوں کا حوالہ دیا، یہ دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے عدالتی فیصلے تھے لیکن عمران خان کا کیس ان دو عدالتی فیصلوں کے تحت نہیں آتا، طلال چوہدری اور دانیال عزیز کیسز عمران خان کیس سے بہت مختلف ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ توہین عدالت تین طرح کی ہوتی ہے جسے فردوس عاشق اعوان کیس میں بیان کیا گیا، ایک جوڈیشل توہین عدالت اور ایک فوجداری توہین عدالت، دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے خلاف کرمنل توہین عدالت کی کارروائی نہیں تھی، ان کے خلاف عدالت کو اسکینڈلائز کرنے کا معاملہ تھا، ان تین عدالتی فیصلوں کا حوالہ دینے کا مقصد تھا، ایک سول توہین عدالت ہے۔
ان کا کہنا تھا عدالت کی اسکینڈلائزیشن فردوس عاشق اعوان سے متعلق ہے، یہ کرمنل توہین عدالت ہے جو زیر التوا مقدمے سے متعلق ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کا جواب تفصیلی پڑھا، فیصلے میں حوالہ توہین عدالت کی اقسام میں فرق سے متعلق دیا گیا، سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہم پابند ہیں، سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ کا مسرور احسن بنام اردشیر کاؤس جی کیس دیکھیں، مسرور احسن بنام اردشیر کاؤس جی کیس کا پیرا گراف نمبر 96 پڑھیں۔
عمران خان کے وکیل حامد خان نے عدالت کے کہنے پر توہین عدالت کیس کا ایک فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ معافی کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا عدالت کے اطمینان پر منحصر ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ کرمنل توہین بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، کرمنل توہین میں آپ کوئی توجیہہ پیش نہیں کرسکتے، ہم اظہار رائے کی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اب سپریم کورٹ کا شاہد اورکزئی کیس کا فیصلہ پڑھیں، اب توہین عدالت قانون کا سیکشن 9 پڑھیں۔
ان کا کہنا تھا اتنی پولرائزڈ سوسائٹی ہے کہ فالورز مخالفین کو پبلک مقامات پر بے عزت کرتے ہیں، اگر اس خاتون جج کے ساتھ بھی ایسا ہوجائے تو پھر کیا ہوگا؟
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ماتحت عدلیہ اس عدالت کی ریڈلائن ہے، ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ عدلیہ کی آزادی اور ڈسٹرکٹ جوڈیشری ریڈ لائن ہے، آپ نے اپنے جواب میں جسٹیفائی کرنے کی کوشش کی۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جسٹیفائی نہیں، وضاحت کرنے کی کوشش کی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سابق وزیراعظم لاعلمی کا عذر پیش کرسکتے ہیں؟ جرم انتہائی سنگین ہے جس کا احساس نہیں ہوا، ہم نے صرف قانون کو دیکھنا ہے۔
حامد خان کا کہنا تھا ہمیں احساس ہے اس لیے جواب میں وہ باتیں لکھی ہیں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا آپ خود ہی بتائیں کہ کیا آپ کا جواب سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق درست ہے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ عمران خان نے جواب میں کہا ہے کہ ضلعی اور اعلیٰ عدلیہ کا احترام کرتا ہوں، عمران خان نے کہا کہ شہبازگل پر تشدد کی وجہ سے بیان دیا۔
عدالت عالیہ اسلام آباد کے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے جواب میں مبینہ تشدد کا لفظ نہیں لکھا، کیا یہ فیصلے جلسوں میں ہوں گے یا عدالتیں کریں گی؟ عدالت کے گزشتہ آرڈر کے بعد بھی یہ جواب فائل کیا گیا، کیا آپ اس کیس کو لڑنا چاہتے ہیں؟
چیف جسٹس اسلام آباد کا دوران سماعت کہنا تھا کہ 70 سال میں کچھ اچھا نہیں ہوا، یہ عدالت اس بات سے بہت آگاہ ہے، آپ اپنے عمل کو جسٹیفائی کرنا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی، کیا اگر سپریم کورٹ کے جج کے بارے یہ الفاظ ہوتے تو یہ جواب ہوتا؟ ضلعی عدلیہ کے ججز کی عزت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ جج جیسی ہے۔
جس پر وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ مجھے جواب کا پورا پیرا گراف پڑھنے دیں، اگر کسی جج کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو رنجیدہ ہوں۔
جس پر چیف جسٹس اسلام آباد اطہرمن اللہ نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر باور کرانے کی کوشش کی کہ اس عدالت میں سب کو عزت دی جاتی ہے اور دی جاتی رہے گی کسی جج کے جذبات نہیں ہوتے، جج کے بارے میں اشتعال انگیزی پھیلائی گئی، وہ جج کہیں جارہی ہوں تو ان کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آسکتا ہے، عدالت نے آپ کو طریقے سے سمجھادیا ہے۔
عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ عمران خان نے جواب میں کہا ہے کہ وہ عدلیہ اور خواتین کا احترام کرتے ہیں، عدالت کو یقین دلاتے ہیں عمران اور ان کے سپورٹرز خاتون جج سے متعلق کچھ نہیں کریں گے۔
حامد خان کے مؤقف پر جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ کیسے ایک سیاسی رہنما جلسے میں کسی جج کے خلاف ایکشن لینے کا کہہ سکتا ہے؟ جج کے خلاف کارروائی کے لیے ایک فورم ہے، عوامی جلسہ وہ فورم نہیں، ایک لیڈر پبلک ریلی میں کیسے کہہ رہا ہے کہ جج کے خلاف لیگل ایکشن لیں گے؟ جج کے خلاف لیگل ایکشن لینے کا بھی طریقہ بتایا گیا ہے، اس کا طریقہ یہ نہیں کہ آپ عوامی مقام پر جلسے میں یہ باتیں کریں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ لیگل ایکشن لینا کسی کا بھی قانونی حق ہے، لیگل ایکشن کا مطلب شکایت بھی ہے، اس فیصلے کے خلاف نظرثانی وغیرہ، آپ نے فرمایا کہ خاتون جج ہرٹ ہوئی ہوں گی، عمران خان نے گفتگو میں ایکشن کے ساتھ لیگل کا لفظ مس کردیا تھا۔
جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا کہ عوامی جلسے میں جو کچھ کہا گیا وہ آپ چاہیں تو ہم اسے یہاں چلاسکتے ہیں، سیاسی رہنما نے کوئی پشیمانی نہیں دکھائی، احتساب عدالت کے باہر بھی وہی کچھ کہا جو ہم یہاں چلاسکتے ہیں، عمران خان جواب میں مسلسل اپنے عمل کو جسٹیفائی کررہے ہیں جو دھمکی جیسا ہے، کیا جواب کہہ رہا ہے کہ توہین عدالت کا فیئر ٹرائل دیا جائے؟ جو الفاظ استعمال کیے گئے وہ دھمکی آمیز تھے۔
دوران سماعت حامد خان نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کا حوالہ بھی دیا جس پر چیف جسٹس اسلام آباد اطہرمن اللہ کا کہنا تھا یہ فیصلہ آپ کے لیے اور زیادہ مہلک ہوگا، اس کیس میں عمران خان نے کہا تھا کہ شرم ناک کا لفظ ماتحت عدلیہ کے لیے استعمال کیا، اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے عمران خان کو متنبہ کیا تھا۔
جس پر وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے پشاور جلسے میں آزاد عدلیہ کی بات کی، تمام پارٹی کارکنان کو منع کیا گیا تھا کہ خاتون جج سے متعلق کوئی سخت الفاظ نہ کہیں، جس پر جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ آپ کے مؤکل اپنے بیان کا کوئی جواز پیش کرنا چاہتے ہیں؟ عمران خان نے اپنے رویے سے بھی یہ نہیں ظاہر کیا کہ انہیں افسوس ہے، تقریر اور توہین عدالت کیس کے بعد بھی تقریروں میں توجیہات پیش کی جاتی رہیں، عمران خان کے حالیہ بیانات سے بھی لگتا ہے کہ انہیں کوئی پچھتاوا نہیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ عمران خان کا توہین عدالت کیس میں ٹرائل چلایا جائے؟
چیف جسٹس اسلام آباد کا کہنا تھا کہ قانون سے لاعلمی کوئی ایکسکیوز نہیں، اگر آپ اپنے عمل کو جسٹیفائی کررہے ہیں تو مطلب عمل پر پچھتاوا نہیں، کسی جج کا نام لیے بغیر کی گئی توہین پربھی سپریم کورٹ نے معافی تسلیم نہیں کی، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے جج میں کوئی فرق نہیں، بار بار سمجھا رہے ہیں کہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔
حامد خان نے عدالت میں کہا کہ عمران خان پرسوں کی تقریر پر وضاحت کے لیے روسٹرم پر آنا چاہتے ہیں، عمران خان کے مطابق پرسوں کی جس تقریر کا غلط حوالہ دیا گیا، جس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ وہ تقریر یہاں چلا کر دیکھ لیں گے، نہال ہاشمی کیس میں کسی جج کا نام نہیں تھا، معافی بھی مانگی گئی لیکن نہیں ملی، ضلعی عدلیہ کی جج کو دھمکی سپریم کورٹ جج سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے، ہمارے بارے میں شرم ناک کہہ دیتے تو کبھی توہین عدالت کا نوٹس نہ کرتے۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی تقریر یکسر مختلف ہے، میں نہیں کہہ رہا کہ ماتحت عدلیہ کم تر ہے، ماتحت اور اعلیٰ عدلیہ دونوں کا احترام کرتا ہوں۔
جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا کہ صرف آپ کے موکل کو سمجھ ہے کہ اس نے کیا کہا اور باقی دنیا کو نہیں؟
جسٹس بابر ستار نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ ہماری عدالت کسی کے خلاف حکم دے اور وہ باہر کھڑا ہو کر کہے کہ میں جج کو نہیں چھوڑوں گا، کیا یہ ٹھیک ہوگا؟ جو جواب داخل کیا گیا اس سے لگتا ہے کہ نتائج کا احساس نہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا بار بار سمجھا رہے ہیں سیاسی رہنما کی بہت ذمہ داری ہو تی ہے، مدینہ منورہ میں جو کچھ ہوا وہ بھی اشتعال دلانے کا نتیجہ تھا، آپ کو بار بار یہ چیز سمجھا رہے ہیں کہ یہ معاملہ بہت سنگین ہے، ہمیں حضورﷺ کی ذات اور فتح مکہ سے سیکھنا چاہیے تاکہ اشتعال پیدا نہ ہو، ڈسٹرکٹ جج کے بارے میں جس طرح کی زبان استعمال کی گئی وہ انتہائی نامناسب تھی۔
حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2014 میں عمران خان کی وضاحت قبول کرتے ہوئے وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا، موجودہ توہین عدالت اور 2014کے عمران خان کے خلاف کیس ایک جیسے ہیں، ہائی کورٹ کو سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو سامنے رکھ کر بڑے دل کا مظاہرہ کرنا چاہیے، سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں آرٹیکل 19 کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا، سیاستدان کئی مرتبہ نادانستہ کچھ الفاظ کہہ جاتے ہیں۔
جسٹس طارق جہانگیری نے کہا کہ کیا آپ نےعمران خان کو بتایا کہ تشدد سے متعلق میڈیکل رپورٹ نے تردید کی تھی؟ جب کہ چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ یہ ہے کہ شہباز گل والا مقدمہ عدالت کی سامنے زیر سماعت تھا۔
جسٹس طارق جہانگیری نے مزید پوچھا کہ کیا عمران خان کو بتایا گیا کہ میڈیکل بورڈ نے ٹارچر کی تصدیق نہیں کی؟ میڈیکل بورڈ میں انتہائی سینئر ڈاکٹرز شامل تھے جب کہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جوڈیشل آرڈر کی اہمیت ہے یا محض تاثر پر جائیں گے، آپ کی ساری لیگل ٹیم عدالت میں موجود تھی۔
شہباز گل کے وکیل شعیب شاہین ایڈووکیٹ روسٹرم پر آئے اور عدالت کو بتایا کہ جیل سپرینٹنڈنٹ کے میڈیکل افسر نے کنفرم کیا تھا کہ جسم پر نشانات تھے، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنے لیے چیزوں کو مشکل نہ بنائیں، آپ کی پوری لیگل ٹیم سماعت کے موقع پر موجود تھی، اب آپ کا تاثر غالب ہو گا یا جوڈیشل آرڈر؟
حامد خان نے کہا کہ میں اس طرف نہیں جا رہا بلکہ کیس ختم کرنے کی بات کر رہا ہوں، میرے موکل کو یہ تاثر تھا کہ شہباز گل پر تشدد ہوا ہے، میرا موکل جج صاحبہ کو ہر گز ہرٹ کرنا نہیں چاہتا تھا اسی لیے انہیں پچھتاوا ہے، عمران خان خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، تاثر یہ ہے کہ شاید خواتین کے خلاف نفرت کا مسئلہ ہے۔
جسٹس بابر ستار نے حامد خان سے استفسار کیا کہ کس نے یہ تاثر پیدا کیا؟ جبکہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ کیا کسی لیڈر نے سوشل میڈیا پر اپنے فالورز کو منع کیا؟ سوشل میڈیا جھوٹے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، عدلیہ نشانہ ہے، سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے ذمے دار سیاسی جماعتوں کے لیڈر ہیں، کیا کسی لیڈر نے کہا کہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال نہ کریں؟
جسٹس بابر ستار نے عمران خان کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ اپنے جواب کا پیرا گراف چار پڑھیں، وہاں لکھا ہے عمران خان کو پتا تھا آرڈر چیلنج ہونا ہے، کیا پھر یہ جان بوجھ کر اپیل پر پیشگی اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں؟
حامد خان نے کہا کہ عمران خان کو معلوم نہیں تھا کہ اپیل ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے، یہ معلوم تھا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر ہو سکتی ہے، جس پر جسٹس بابر ستار نے کہا تو مطلب وہ اپیل دائر ہونےکی صورت میں کیس پر اثر انداز ہونا چاہ رہے تھے؟
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ یا تو ہم اس نظام پر اعتماد کریں یا سب چیزیں جلسے میں طے کریں۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جواب میں کہا گیا کہ تاثر تھا انسان سے غلطی ہو جاتی ہے، دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے کیس سے پہلے متعدد تقاریر کی گئی تھیں۔
عدالتی معاون منیر اے ملک کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ ملزم پر الزام ہے کہ خاتون سیشن جج کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی گئی، یہ بھی الزام ہے کہ زیر التوا مقدمے پر بھی اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی، جوڈیشل اور کرمنل توہین عدالت کا الزام عائد کیا گیا، ہم اس وقت شوکاز کے مرحلے پر ہیں، عوام میں عدلیہ کا اعتماد غیر جانبداری اور منصفانہ فیصلوں سے قائم ہوتا ہے۔
منیر اے ملک کی جانب سے مرزا اسلم بیگ کے خلاف توہین عدالت کیس کی مثال دی گئی اور کہا گیا کہ اسلم بیگ کیس میں معافی نہیں مانگی گئی تھی، اسلم بیگ کیس میں گہرے پچھتاوے کاذکر کیا گیا تھا، الفاظ افسوس ناک مگر انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں، عدالت تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے میں انہیں کہتا ہوں آئندہ ایسا نہ کریں، عدالت سے درخواست ہےاس موقع پر توہین عدالت سے درگزر کرے، آج کی کارروائی یہ پیغام دے گی کہ ایسی نان سینس آئندہ برداشت نہیں ہوگی، عدالت کو جو پیغام دینا تھا دے دیا، اب تحمل دکھانا چاہیے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے گزشتہ سماعت پر بھی کہا تھا کہ ضلعی عدلیہ ریڈ لائن ہے۔
اس موقع پر عدالتی معاون منیر اے ملک نے عمران خان پر توہین عدالت کاکیس ختم کرنے کی رائے دے دی۔
جسٹس بابرستار کا کہنا تھا کہ منیر اے ملک صاحب یہ تاثر نہیں جائے گا کہ بااثرلوگوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور جو لوگ با اثر نہیں ہوتے انہیں سزا دے دی جاتی ہے۔
عدالتی معاون مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ توہین عدالت کا قانون ججز کی حفاظت کے لیے نہیں، توہین عدالت کا قانون انصاف میں خلل ڈالنے سے متعلق ہے، عوامی مفاد آزادی اظہار رائے میں ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ معطل کردیا گیا تھا؟ اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ وہ توہین عدالت پر نہیں تھا، کانگریس کی توہین سے متعلق بات پر شاید معطل ہوا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مخدوم صاحب آپ نے امریکا کی مثال دی ہے۔
مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ مفاد عامہ انصاف کی فراہمی میں ہے تو اظہار رائےکی آزادی میں بھی ہے، امریکا میں صدر نے عدالتی فیصلے کو بدترین کہا تھا ، وہاں عدلیہ نے گریز کا مظاہرہ کیا اور دوسرا راستہ نکالا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ امریکا میں ہی مگر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ معطل ہوا تھا، ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ اشتعال دلانے پر معطل ہوا تھا، لیڈر کا رول معاشرے میں اہم ہے جو معاشرے کو بدل سکتا ہے۔
عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ معاملہ سیاسی مقدمات کاہو تو عدالتی فیصلے سے ایک پارٹی خوش اور دوسری ناراض ہوتی ہے، کوئی سیاسی رہنما زیر سماعت مقدمے پرکچھ بھی کہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کےفیصلے پرکوئی اثرنہیں ہوگا، بےنظیربھٹوکیس میں اس وقت وہ بھی سابق وزیراعظم تھیں، سپریم کورٹ نے معاملہ ختم کردیا تھا، محترمہ بےنظیر کو وزارت عظمٰی سے ہٹا دیا گیا اور مقدمات چل رہے تھے، سپریم کورٹ نے کہا سیاسی حالات کو مد نظر رکھنا ہوگا،کیا سیاسی رہنما کو کارنرڈ کردیا گیا ؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ضلعی عدلیہ کا اعلیٰ عدلیہ کے برابر احترام کیوں نہیں، ملزم کا کنڈکٹ جواب داخل کرتے ہوئےکیا ہو؟ یہ 7 رکنی سپریم کورٹ ججز کے فیصلے ہیں، آپ کی تمام باتیں قابل احترام ہیں۔
اس موقع پر دوسرے عدالتی معاون مخدوم علی خان نےبھی عمران خان پر توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنےکی رائے دے دی۔
جسٹس بابرستار کا کہنا تھا کہ آپ کہہ رہے ہیں ایک سیاسی رہنما کاکیس سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے، توپھر ہر شخص کے مساوی ہونے کا اصول کدھر جائے گا۔
چیف جسٹس نے مخدوم علی خان سےسوال کیا کہ کیا کیاعمران خان کی جانب سے داخل جوابات اطمینان بخش ہیں؟ اسی پارٹی کے دیگر لیڈرز نے اس کورٹ کے خلاف باتیں کیں، ہمیں ان چیزوں سے فرق نہیں پڑتا، ہمارے بارے میں کچھ کہا جاتا، ہم اس کا بالکل نوٹس نہ لیتے، اس بات پر ہم منیر ملک اور آپ سے بالکل متفق ہیں، یہاں انصاف کی فراہمی سے ضلعی عدلیہ کا معاملہ ہے۔
مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ اس عدالت میں آئے کیسز سیاست سے قریب تر ہی ہوتے ہیں، جس بھی فریق کے خلاف فیصلہ آئے دوسرا تنقید کرے گا، دیکھنا ہوتا ہے کسی لیڈر کو کارنرڈ تو نہیں کیا گیا، عدلیہ کایہ پیغام جاناہی نہیں چاہیے کہ وہ سیاست دان کو کارنرڈ کرنے میں شامل رہی۔
عمران خان نے اپنے نئے جواب میں کہا تھا کہ وہ عوامی اجتماع میں کہے گئے اپنے الفاظ کے ساتھ نہیں کھڑے، خاتون جج کو دھمکی دینے پر افسوس ہے، پچھتاوا ہے، عدالت ان کی اس وضاحت کو کافی سمجھتے ہوئے ان کے خلاف دائر کیس ختم کرے۔
عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے موقع پر عدالت کے گرد سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر دو ایس پیز سمیت 778 افسران اور اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
سکیورٹی آرڈر کے مطابق راستوں کو خاردار تاریں لگا کر بند کیا گیا اور کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے آنسو گیس شیل اور بکتر بند گاڑی بھی موجود رہیں۔