مراکز قومی بچت کراچی میں کرپشن کے خلاف تحقیقاتی اداروں کا گھیرا تنگ

ہم معاشی تنگ دستی کے دور میں جی رہے ہیں ہر آدمی محفوظ سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ نوکر پیشہ افراد ہوں یا پیشنرز بڑی تعداد میں لوگ قومی بچت سے رجوع کرتے ہیں کیونکہ قومی بچت کا ادارہ عام افراد کے علاوہ بوڑھے اور پینشنرز کو سب سے زیادہ شرح منافع پر سرمایہ کاری کا موقع دیتا ہے۔ اِس حوالے سے یہ ادارہ مختلف بچت اسکیموں کو متعارف کراچکا ہے۔

قومی بچت کی بنیاد اُس وقت ڈالی گئی تھی جب انگریز حکومت کو پہلی جنگِ عظیم اور دوسری جنگِ عظیم میں سرمائے کی ضرورت پڑی۔ برٹش حکومت نے پرکشش شرح منافع پر عوام سے سرمایہ جمع کیا اور اِس تجربے کے بعد 1873ء میں گورنمنٹ نے سیونگ بینک ایکٹ کے ذریعے ایک ادارہ قائم کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی یہ ادارہ قائم رہا جو اب تک فعال ہے۔

کچھ عرصے قبل سوشل میڈیا کے ذریعے قومی مرکز کراچی کی مختلف برانچوں میں کرپشن کا اسکینڈل سامنے آیا. سوشل میڈیا پر چلنے والی معلومات کے مطابق قومی مرکز قومی بچت کراچی کی ہر برانچ میں 4 سے 5 لڑکے پرائیوٹ طور پر کام کررہے ہیں جن کی تنخواہ نہ سرکار دیتی نہ ہی کوئی دوسرا محکمہ، بلکہ ان کی تنخواہ برانچ کے افسران ان کو دیتے ہیں. سوشل میڈیا پر چلنے والی معلومات کے مطابق یہ پرائیوٹ لڑکے ہر برانچ میں جو کسٹمر آتے ہیں ان کے پیسے چوری کرتے ہیں. ان سب باتوں کا ثبوت ان کی برانچ سے ملے گا. ہر لڑکے کی روز ویڈیو ریکارڈنگ ہورہی ہے. سوشل میڈیا پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس سارے کام میں مرکز قومی بچت کے ڈائریکٹر محمد علی تھیبو اور ان کے اسسٹنٹ عامر محمود شامل ہیں۔۔

مجھے یاد ہے کہ چند سال قبل محکمہ قومی بچت میں سیونگ اسکیم ہولڈرز کے سرٹیفکیٹس کی رقم میں بڑے پیمانے پر کرپشن کا انکشاف سامنے آیا تھا، جس میں افسران نے 20 کروڑروپے نکلواکر اپنے عزیزوں کے نام منتقل کروائے تھے۔

میں نے بحیثیت تحقیقاتی صحافی قومی بچت مرکز کراچی کے بارے میں سوشل میڈیا پر چلنے والے الزامات پر تحقیقات کا فیصلہ کیا تو مختلف ذرائع تو ہوشربا انکشافات سامنے آنے لگے۔ ذرائع نے بھی تصدیق کی کہ ہر برانچ میں دو سے تین غیر متعلقہ افراد تعینات ہیں، دفاتر میں لگےسی سی ٹی وی کیمروں میں ان افراد کی موجودگی ریکارڈ ہورہی ہے۔ ان پرائیوٹ افراد کو برانچ مینجرز کسی باضابطہ طریقے سے تنخواہ دینے کے بجائے انہیں نقد رقم دیتے ہیں۔

معاملے پر موقف جاننے کے لئے قومی بچت مرکز کراچی کے ریجنل ڈائریکٹر محمد علی تھیبو سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس سارے معاملے کو قومی بچت کی ورکرز یونین میں شامل چند افراد کا پروپیگنڈا قرار دیا اور ساتھ ہی واضح طور منع کردیا کہ ادارے میں غیر متعلقہ لوگ تعینات ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میری معلومات کے مطابق ادارے میں تعینات ان غیر متعلقہ افراد میں کوئی باضابطہ طریقے سے تعینات نہیں حالانکہ ان افراد کو ادارے میں کیش اور دیگر حساس نوعیت کی معلومات تک رسائی حاصل ہے۔ ادارے کے افسران اور باضابطہ ملازمین کی ایک ویڈیو بھی موجود ہے. چند افسران اور ملازمین میں بھی غیر متعلقہ افراد کی تعیناتی سے بے چینی پائی جاتی ہے۔لیکن محمد علی تھیبو نے اس معاملے پر باضابطہ موقف دینے سے انکار کردیا۔

حیرت انگیز طور پر میری بات چیت کے دوسرے روز ہی قومی بچت کراچی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عامر محمود نے تمام قومی بچت مرکز کی برانچوں میں تعینات پرائیوٹ افراد کو ہٹانے کا سرکلر جاری کردیا. میرے لئے یہ تحریری حکمنامہ قومی بچت مرکز کراچی کی مختلف برانچوں میں پرائیوٹ افراد کی تعیناتی کی تصدیق ثابت ہوا۔ افسران جن پرائیوٹ افراد کی ادارے میں موجودگی سے انکار کررہے تھے انہی کو ہٹانے کے احکامات کیسے جاری ہوسکتے ہیں؟ تحقیقات کے بنا جاری تحریری حکم نامے نے مزید سوالات کو جنم دیا کہ کئی برسوں سے پرائیوٹ افراد ادارے میں کیسے تعینات رہے؟ کیونکہ اس حوالے منظر عام پر آنے والی ویڈٰیو کو قومی بچت کراچی کے افسران کئی ماہ پرانی قرار دے چکے تھے۔ پرائیوٹ افراد کی سرپرستی کرنےوالوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ کیونکہ کسی بااختیار افسر کی سرپرستی کے بغیر غیر متعلقہ لوگ ادارے میں کام نہیں کرسکتے۔

تحقیقاتی اداروں نے بھی قومی بچت کراچی ریجن کی مختلف برانچوں میں پرائیوٹ افراد کی تعیناتی کے ذریعے مالی کرپشن کی تحقیقات شروع کردی ہے اور کرپٹ افسران اور ان کے سہولت کاروں کےخلاف گھیرا تنگ ہونے والا ہے۔ تحقیقاتی اداروں کو مختلف برانچوں میں تعینات رہنے والے افراد کی سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیجز سے شناخت اور ان سے پوچھ گچھ کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ کسٹمرز کے اکاؤنٹس میں ہونے والے ہیر پھیر کو بھی تحیقاتی ماہرین چیک کریں گے۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سارے متنازعہ معاملے میں شامل افراد میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اور جلد سے جلد شواہد کو ضائع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

Corruption in National Saving Centres