اگر کبھی آپ کو یورپ جانے کا موقع ملے تو وہاں آپ کو سب سے زیادہ دلچسپی تاریخی عمارات میں ہوگی۔ آپ وہاں کھڑے ہوکر اپنے یادگار لمحات کو اپنے کیمرے میں قید کرنا پسند کریں گے کہ تمام ممالک کا کل اثاثہ ان تاریخی عمارات میں پوشیدہ ہوتا ہے جو ان ممالک کا ورثہ ہے۔
پاکستان کے کئی شہروں میں انگریزوں کے بنائے ہوئے گھنٹہ گھر موجود ہیں، جنہیں میں مردہ گھنٹہ گھر کہتا ہوں۔ پاکستان میں صوبہ سندھ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سب سے زیادہ گھنٹہ یہاں پر موجود ہیں۔ ان میں سے 12 گھنٹہ گھر کراچی میں ہیں اور صرف تین کی گھڑیاں چلتی ہیں۔ اس کے بعد سندھ کا تیسرا بڑا شہر سکھر ہے جہاں پانچ گھنٹہ گھر موجود ہیں۔ چھوٹے شہروں میں سکھر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پانچ گھنٹہ گھروں کی تاریخ سے یہ شہر اور اس کے باسی واقف ہیں۔
ویسے تو گھنٹہ گھر کسی بھی شہر کی شناخت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ان کے اطراف سے راستے بھی نکلتے ہیں۔ سکھر میں مرکزی گھنٹہ گھر کے علاوہ دیگر گھنٹہ گھر بتاریخی مقامات پر تعمیر کئے گئے ہیں۔ ملک کے دیگر شہروں میں موجود گھنٹہ گھر خوبصورت بھی ہیں مگر سکھر کے پانچوں گھنٹہ گھر اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں اور یہ پانچوں قدیمی گھنٹہ گھر ہیں۔
پہلا گھنٹہ گھر شہر کے وسط میں موجود ہے اور اسے مرکزی گھنٹہ گھر بھی کہا جاسکتا ہے۔ ماضی میں یہ مارکیٹ ٹاور کے نام سے معروف تھا۔ دوسرا گھنٹہ گھر میر معصوم شاہ لائبریری ہے۔ تیسرا ریلوے سلیپر فیکٹری کے نزدیک واقع ہے، چوتھا میونسپل کارپوریشن کے دفتر میں موجود ہے، جبکہ پانچواں گھنٹہ گھر عید گاہ روڈ کے نزدیک ہے جو ’’پیر الٰہی بخش لٹریسی ٹاور‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ گھنٹہ گھر اس حوالے سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اسے اونچی پہاڑی پرتعمیر کیا گیا ہے۔
ماضی میں جب علم کی شمع روشن کرنے اور جہالت کے خلاف جدوجہد کی تحریک شروع کی گئی تھی تو اس تحریک کے آغاز پر ایک گھنٹہ گھر تعمیر کیا گیا تھا اسے اس وقت ’’علمی ٹاور‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ’’پیر الٰہی بخش لٹریسی ٹاور‘‘علم کی شمع روشن کرنے کی جدوجہد کی علامت ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ 1939 میں سندھ کے وزیر تعلیم پیر الٰہی بخش تھے، جن کے نام سے کراچی میں ایک کالونی بھی آباد ہے، جسے پی آئی بی کالونی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کی جانب سے ہی علم کی شمع روشن کرنے کی تحریک شروع کی گئی تھی۔ اس تحریک کے ابتدائی مراحل میں سکھر کے اس پرفضا مقام پر عید گاہ کے سامنے والی ٹکری پر اس علمی ٹاور کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ ایک سال تک تعمیری مراحل طے کرنےکے بعد 1940میں یہ کلاک ٹاور پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس ٹاور کی تعمیر میں مخیر حضرات نے دل کھول کر چندہ دیا تھا اور تعمیر مکمل ہونے کے بعد اسے جہالت کے خاتمے اور علم کے فروغ میں عظیم الشان خدما ت کے صلے میں اسے پیر الہیٰ بخش کے نام سے منسوب کردیا گیا۔ یہ ٹاور سطح زمین سے 110 فٹ بلند اور 66 فٹ چوڑائی میں ہے۔ اس کے چاروں اطراف خوبصورت گھڑیال بھی لگے ہوئے تھے۔ عید گاہ کے سامنے والی ٹکری پر قائم ہونے والے اس علمی ٹاور پر ایک خوبصورت پارک اور پانی کا حوض بھی بنا ہوا تھا اور یہ تفریح کےلیے انتہائی اہمیت کا مقام ہے۔ سطح زمین سے110 فٹ بلند ہونے کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد اپنے اہل خانہ کے ہمراہ سیر و تفریح کے لئے اس مقام کا رخ کرتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد کسی بھی حکمران نے کسی نئی تعمیر میں حصہ نہیں لیا اور نا ہی کسی تاریخی ورثے کی مناسب دیکھ بھال کرسکے۔
مجھے یاد ہے بچپن میں حیدرآباد مارکیٹ ٹاور دیکھنے جاتا تھا تو وہاں ایک صاحب موجود ہوتے تھے۔ ان کا کام گھڑی میں چابی بھرنا ہوتا تھا۔ ایک بار میں نے ان سے پوچھا، "چچا آپ یہ کام مفت میں کرتے ہیں؟” انہوں نے بتایا، "بیٹا مجھے پچاس روپے ماہوار تنخواہ ملتی ہے، میونسپل میں آج بھی یہ آسامی موجود ہے مگر اب چابی بھرنے والا کوئی نہیں رہا۔ اگر ہوتا بھی تو کس کی چابی بھرتا کہ مشین ہی نہیں ہے۔
جب کوئی قومی تہوار آتا ہے تو میونسپل کارپوریشن کی جانب سے اتنی زحمت ضرور کی جاتی ہے لٹریسی ٹاور کو برقی قمقموں سے سجا دیا جاتا ہے، یا پھر الیکشن کے دنوں میں ان گھنٹہ گھروں پر مختلف سیاسی جماعتیں قبضہ کر کے اپنے پارٹی رہنماؤں کی تصاویر اور پرچموں سے رونق بخش دیتی ہیں۔ یہ وہ ٹاورز تھے جب لوگ گھروں میں بیٹھ کر ان کی ٹن ٹن کی آواز سے وقت پر اپنے کام کاج نمٹاتے تھے۔ جن کے پاس کلائی گھڑیاں ہوتی تھیں وہ اپنی گھڑی کی سوئیوں کو اس کے مطابق ترتیب دیتے تھے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ضلعی و میونسپل کارپوریشن انتظامیہ کی عدم توجہی و لاپرواہی کے سبب قدیمی اہمیت کے حامل یہ پانچوں گھنٹہ گھر اپنی افادیت کھو بیٹھے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پانچوں گھنٹہ گھروں پر نصب گھڑیال غائب ہوچکے ہیں اور انتظامیہ کو اس بات کا علم تک ہی نہیں کہ ان گھنٹہ گھروں کے گھڑیال آخر کون اور کب لے کر گیا ہے۔
میں اس پوسٹ کو صرف معلومات تک رکھنا چاہتا تھا مگر کچھ دل کی بھی کہہ دوں کہ کہیں میرا دل پھٹ نا جائے ، اگر میں "علمی ٹاور” کی بات کروں تو سندھ میں علمی جہدوجہد کی تحریک کو بھی اس کا نقصان اٹھانا پڑا ہے ، سندھ میں آج بھی تعلیم کی حالت انتہائی تشویشناک ہے ، دیہاتی اسکول کی عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ، گھوسٹ اساتذہ کی بھر مار ہے ، امیروں کے بچے شہر کی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ، غریبوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ۔ بس یہ وہ تاریخی ورثہ ہے کی ترویج و ترقی مسلسل جاری وساری ہے یہی کہانیاں ہماری آنے والی تاریخ میں لکھی جائیں گی اور یہی ہمارا تاریخی ورثہ ہوگا جسے دنیا بھر کے سیاح دیکھنے آئیں گے کہ اس گلوبل دور میں ایک ملک کیوں ترقی نہ کر سکا۔