بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی والدین بہت سی توقعات وابستہ کرتے ہوئے مستقبل کی لاحاصل منصوبہ بندی شروع کر دیتے ہیں۔ بنیادی ضروریات مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مستقبل کے منصوبے بھی ساتھ ساتھ جاری رہتے ہیں۔ اسے کس اسکول میں ایڈمیشن دلانا ہے اس کو کیا بنانا ہے جاب کے لیے فیلڈ وغیرہ وغیرہ۔۔ دیکھا جائے تو یہ غلط نہیں اولاد کے مستقبل کے لیے فکر مند ہونا فطری ہے کیونکہ اولاد والدین کا وہ سرمایہ ہے جو بڑھاپے میں کام آتا ہے ان کا سہارا بنتا ہے۔
ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اولاد کو اچھا مستقبل دیا جائے۔ وہ اولاد کو اچھی تربیت کے ساتھ تعلیم دے کر بہتر فیلڈ کا انتخاب کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ بچہ بھی وہی فیلڈ منتخب کرے گا مگر ضروری نہیں کہ ایسا ہو۔ ممکن ہے کہ بچہ وہ نہ بننا چاہتا ہوں جو آپ چاہتے ہیں. عین ممکن ہے اس کا رجحان کسی اور طرف ہو، جیسے کہ آپ چاہتے ہیں وہ سائنس پڑھے جبکہ وہ آرٹس پڑھنے کا خواہشمند ہو سکتا ہے۔ آپ اپنے بچے کو بزنس مین ڈاکٹر یا انجینئر بنانا چاہتے ہو، مگر کیا پتا وہ استاد پائلٹ قلم کاریاں ڈیزائنر بننا چاہتا ہو۔ بچے کو جانیں، اس کو پرکھیں کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔ نہ کمیونیکیشن گیپ آنے دیں نہ اپنی پسند اس پر حاوی کریں۔ والدین شروع ہی سے ہر بچے کے رجحان سے واقف ہوتے ہیں کیونکہ بچوں کی کامیابیاں اور ناکامیاں اور دلچسپی مڈل اسکول تک واضح ہو کر سامنے آجاتی ہیں۔ بچوں کا نویں اور دسویں میں ہیں سائنس کمپیوٹر اور کامرس یا آرٹس کے میدانوں سے رابطہ ہو جاتا ہے اور دنیا میں متعدد نئے مضامین اور منفرد شعبے متعارف ہو چکے ہوتے ہیں ، بچہ جن کا ماہر بھی بن سکتا ہے۔
وٹس ایپ فیشن ڈیزائننگ کے شعبے میں بھی کامیابی وکامرانی ہو سکتا ہے فائن آرٹس میں بھی نام پیدا کر سکتا ہے اسے موقع دیجئے تاکہ وہ اپنی شخصیت کو تعمیر کر سکے اپنے بچے کو وہ بنائے جو وہ بننا چاہتا ہے نہ کہ وہ جو آپ چاہتے ہیں۔