مشیراطلاعات پنجاب فردوس عاشق اعوان سیالکوٹ کی خاتون اسسٹنٹ کمشنر سونیا صدف کو فرائض سے غفلت برتنے پر جھاڑ پلانے کے بعد سے موضوع بحث بنی ہوئی ہیں۔ فردوس عاشق اعوان کے CSS افسر کو یوں سر راہ ڈانٹنے پر جہاں بعض لوگ ان کے اس عمل کی تعریف کررہے ہیں اور سرکاری افسران کو کڑی تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں تو وہیں کچھ افراد ان کے اس عمل کی مخالفت میں اپنا ووٹ ڈال رہے ہیں۔
پڑوسی ملک کے وزیراعلیٰ اروند کیجری وال کی سرکاری افسر پر برہمی کی ایک وڈیو بھی سوشل میڈیا کے کیڑوں کے ہاتھ لگ گئی جس نے سرکاری افسران کے رویوں پر مزید سنجیدہ سوالات اٹھادیے کہ سرکاری افسران ہر جگہ بس کیا صرف کرسیاں ہی توڑ رہے ہیں؟ اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو کر خود کو عوام کے خدمت گار سمجھنے کے بجائے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے محض پروٹوکول سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ ایسے ہی ایک اسسٹنٹ کمشنر سے میرا بھی کچھ عرصہ قبل صرف ایک دستخط کروانے کے لیے پالا پڑا تو مجھے پہلی بار اس افسر شاہی کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا اور اس اتفاق نے مجھے چھٹی کا دودھ یاد دلادیا۔ شاید اس افسرشاہی کو بھگتنے سے قبل میں نے اپنے آپ کو اتنا بے بس کبھی نہیں پایا تھا۔
میری پھپھو کے بیٹے نے میٹرک کرنے کے بعد پاکستان نیوی میں Apprenticeship Program کے لیے اپلائی کیا اور ٹیسٹ بھی پاس کرلیا۔ لسٹ میں نام آنے پر نیوی حکام نے کچھ ضروری کاغذات اور Solvency Certificate آئندہ بیس روز میں جمع کرانے کی ہدایت کی۔ پاکستان نیوی فریش میٹرک پاس طلبہ کو چار سالہ ٹیکنیکل کورسز کرواتی ہے۔ ہر طالبعلم پر ادارے کا لاکھوں روپے خرچ آتا ہے۔ طالبعلم آدھے راستے میں کورس چھوڑ کر چلا نہ جائے اور ادارے کو نقصان سے بچانے کے لیے ہر طالب علم سے زر ضمانت کے طور پر تقریباً 8 لاکھ روپے ملکیت کی کسی عزیز کی پراپرٹی کا Solvency Certified جمع کرانا ہوتا ہے کہ اگر طالبعلم کورس چھوڑ گیا تو ادارہ جمع کرائی گئی پراپرٹی کو سرٹیفکیٹ کے ذریعے فروخت کرکے اپنا پیسہ ریکور کرانے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ عمومی طور پر ایسا ہوتا تو نہیں لیکن ڈیمانڈ کے مطابق قانونی کاغذی کارروائی ضرور کروانا ہوتی ہے. دلچسپ بات یہ تھی کہ میرے پُھوپا پاک نیوی کے ہی ملازم ہیں مگر ادارے کو ان کے بچے کی شورٹی کسی اور کی پراپرٹی پر چاہیے تھی جو کم از کم میری تو سمجھ سے بالاتر تھی۔
پراپرٹی کے کاغذات جمع کرانے کے لیے پھپھو نے میرے والد سے رابطہ کیا تو انھوں نے بچے کے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی پراپرٹی کا Solvency Certificate دینے کی حامی بھرلی۔ اگلے روز پھپھو گھرآئیں تو ساتھ ایک سلپ بھی لائیں جس پرعموماً کسی بھی داخلے کے لیے جمع کرائی جانے والی دستاویزات کی تفصیل درج ہوتی ہے، جب میں نے تفصیل پڑھی تو ساتویں پوائنٹ پر سالیونسی سرٹیفکیٹ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی تھی اور اس سرٹیفکیٹ پر جس علاقے میں پراپرٹی واقع ہے وہاں کے ایریا افسر (کونسلر یا ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریٹر) کے دستخط کروانے تھے. سو یہ دستخط کروانے کی ذمہ داری میرے سر ڈال دی گئی اور میں نے بھی خوشی خوشی قبول کرلی کیونکہ میں سوچ رہا تھا کہ میرا تعلق تو میڈیا سے ہے۔ محض ایک دستخط ہی تو کروانا ہے تعارف کروانے پر ہی کام ہوجائے گا، بلدیاتی نظام کی مدت ختم ہونے کے باعث کونسلرز گھر جاچکے تھے ایڈمنسٹریٹرز کا اضافی چارج اسسٹنٹ کمشنرز کو سونپا جاچکا تھا. ہماری پراپرٹی جمشید ٹاؤن میں واقع تھی ایک صاحب سے مشورہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ اپنے علاقہ کے یوسی آفس چلے جائیں وہاں موجود یوسی سیکریٹری آپ کو دستخط اور اسسٹنٹ کمشنر کی مہر لگادے گا۔ میں نے ان صاحب کی تجویز پر من و عن عمل کیا اور یوسی آفس جا پہنچا۔ سیکرٹری صاحب اپنے کمرے میں کرسی پر براجمان کسی دوست کے ساتھ محو گفتگو تھے میں نے اپنی عرضی پیش کی تو یوسی سیکریٹری صاحب نے بڑے تحمل کے ساتھ پورا مدعا سننے کے بعد اپنا دامن جھاڑتے ہوئے ہاتھ کھڑے کرلیے اور بتایا کہ اسسٹنٹ کمشنر کی اسٹیمپ ضرور ہمارے پاس موجود ہوتی ہے لیکن میں یہاں دستخط کرنے کا مجاز نہیں لہذا آپ اسسٹنٹ کمشنر جمشید ٹاؤن کے دفتر چلے جائیں وہ آپ کو دستخط کردیں گے۔ اسسٹنٹ کمشنر جمشید کا دفتر جہاں واقع ہے وہاں سے محض چند قدم کے ہی فاصلہ پر ایک میڈیا ہاؤس میں تین سال سروس بھی کرچکا تھا تو گمان یہی تھا کہ کوئی نہ کوئی جان پہچان نکل آئے گی مگر شاید مجھے یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ اسسٹنٹ کمشنر سے ایک دستخط کروانا میرے لیے کتنا بڑا امتحان ثابت ہوگا۔
اگلے روز صبح اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر پہنچا تو معلوم ہوا کہ صاحب ابھی تک دفتر نہیں آئے، تقریباً آدھا گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد جب دوبارہ اسسٹنٹ کمشنر کے پرسنل سیکریٹری سے پوچھا تو بتایا گیا کہ صاحب صبح اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں اور شام کو چار بجے تک دفتر پہنچتے ہیں. یہ سن کر کچھ مہربانوں کو فون ملایا اور اسسٹنٹ کمشنر سے رابطے کا ذریعہ معلوم کیا تو بتایا کہ جمشید ٹاؤن کا اسسٹنٹ کمشنر کوئی نیا افسر آیا ہے اس سے کوئی جان پہچان نہیں. کوئی راستہ نہ ملنے پر اگلے روز شام پانچ بجے دوبارہ اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر پہنچ گیا، جناب ارسلان سلیم صاحب کو اپنے دفتر میں موجود پا کر نہایت خوشی ہوئی اور یہ گمان ہوا کہ آج میرا یہ کام ہوجائے گا، اپنا وزٹنگ کارڈ ملاقات کے لئے بھجوایا تو تقریباً پانچ منٹ انتظار کرنے کے بعد میرا بلاوا آگیا، کمرے میں داخل ہوا تو قائداعظم کی بڑی سی تصویر کے نیچے ایک خوبرو نوجوان کو نشست پر براجمان پایا. اسسٹنٹ کمشنر صاحب نے مجھے بغور سنا اور مختیار کار کو کمرے میں طلب کرکے مجھے انھیں اپنا کیس دوبارہ بیان کرنے کو کہا میں ایک بار پھر تمام دستاویزات دکھائے اور سالیونسی سرٹیفکیٹ پر دستخط کرنے کی گزارش کی، اسسٹنٹ کمشنر نے مختیار کار سے استفسار کیا کہ آج سے قبل کوئی Solvency دستخط ہوئی ہے جس پر مختیار کرنے جواب دیا کہ ریکارڈ چیک کرنا پڑے گا. اسسٹنٹ کمشنر نے مجھے کہا کہ آپ ان کے ساتھ چلے جائیے یہ آپ کا کام کردیں گے جس کے بعد میں شکریہ ادا کرتے ہوئے مختیار کار کے ساتھ ہولیا اور یہاں سے تاریخی خواری کا آغاز ہوا۔
مختیار کار نے کچھ دیر اپنے کمرے میں بیٹھانے کے بعد عرض کیا کہ آپ کل تشریف لے آئیے گا میں ریکارڈ نکلوا کر رکھ لوں گا. اگلے روز میں مختیار کار کے پاس جا پہنچا تو موصوف فرمانے لگے کہ ہمارے پاس تو زمین کا ریکارڈ موجود ہے، فلیٹ کا ریکارڈ ہم نہیں رکھتے اور فلیٹ کی زمین آپکی ملکیت نہیں، جس کے بعد مجھے اسسٹنٹ کمشنر صاحب کے پاس لے جایا گیا اور انھیں بھی آگاہ کیا گیا، جس پر اسسٹنٹ کمشنر جمشید ٹاؤن ارسلان سلیم نے مجھے بتایا کہ آج سے قبل اس قسم کے سرٹیفکیٹ کا کیس ہمارے پاس نہیں آیا یہ ہمارا کام نہیں ہے. جس پر میں نے انھیں پاکستان نیوی کی فراہم کردہ لسٹ تھمائی اور لفظ ایڈمنسٹریٹر کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہوئے بتایا کہ ایڈمنسٹریٹر کا چارج آپ کے پاس ہے لہذا دستخط بھی آپ ہی کے درکارہیں لیکن اسسٹنٹ کمشنر نے دستخط کرنے سےمعذوری ظاہر کردی اور کہا کہ آپ کے فلیٹ کا تو ریکارڈ بھی ہمارے پاس موجود نہیں جس کے بعد میں کمرے سے اٹھا اور باہر آکر اپنے ایک ساتھی جو کہ بلدیاتی معاملات کے سینئر رپورٹر تھے کو فون ملایا اور صورتحال سے آگاہ کیا، جس پر انھوں نے کہا کہ دس منٹ وہیں بیٹھو میں خود آرہا ہوں چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں میرے ساتھی وہاں پہنچ گئے اور اسسٹنٹ کمشنر سے ملاقات کے لیے کارڈ بھجوایا تو جواب آیا کہ میں بتا چکا ہوں یہ میرا کام نہیں جواب ملنے پر میرے لیے آنے والے ساتھی رپورٹر نے اپنا کارڈ بھیج کر ملاقات کی اجازت چاہی تو اسسٹنٹ کمشنر صاحب نے اندر بلوالیا، جہاں میں نے انھیں تمام اصل دستاویزات بھی ہیش کیں لیکن موصوف پھر بھی مطمئن نہ ہوئے. میں نے اے سی صاحب سے عاجزانہ درخواست کی کہ جناب میں نے اپنے فلیٹ کو سب رجسٹرار آفس سے ٹرانسفر کروایا تھا آپ وہاں سے ریکارڈ منگوالیں، موصوف اس پر بھی آمادہ نہ ہوئے. وہاں موجود مختیار کار نے مداخلت کرتے ہوئے کہا آپ سب رجسٹرار سے لکھوا کر لے آئیں ہم دستخط کردیں گے جس کے بعد میرے لیے ایک نئے باب کا آغاز ہوا.
سب رجسٹرارآفس میں ایک جاننے والا موجود تھا جس نے میری بہت مدد کی اور ایک ہی روز کے اندر سب رجسٹرار کے آفس سے غیر حاضر ہونے کے باوجود میرے فلیٹ کا ریکارڈ (سرچ لیٹر) بنوا کر صاحب کے گھر جا کر دستخط کرواکر مجھے فراہم کردیا. پراپرٹی ریکارڈ ملنے پر مجھے پھر خوش گمانی ہوئی کہ اب تو کام ہوجائے گا. مگر ابھی اسسٹنٹ کمشنر کے دستخط ہونا باقی تھے اب تک تو میں صرف یہ ثابت کرنے کا لیٹر حاصل کرسکا تھا کہ میری پراپرٹی کا سرکاری ریکارڈ موجود ہے اور وہ میرے والد کے ہی نام پر ہے.
ہفتہ اتوار کی چھٹی کے بعد پیر کو پھر سے آفس سے جلدی نکل کر اسسٹنٹ کمشنر جمشید ٹاؤن کے دفتر پہنچا تو معلوم ہوا کہ اسسٹنٹ کمشنر صاحب چھٹیوں پر اپنے گھر لاہور گئے ہوئے ہیں ایک دو روز میں آجائیں گے اے سی صاحب کے آفس بوائے سے بات چیت کی تو معلوم ہوا کہ ارسلان سلیم صاحب کی بطور اسسٹنٹ کمشنر یہ پہلی تعیناتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اس سالیونسی پر دستخط کرنے سے کترارہے تھے کیونکہ انہوں نے آج سے قبل اس قسم کا کیس ہینڈل نہیں کیا تھا، اسی آفس بوائے کہ کہنے پر کچھ فاصلے پر موجود ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ٹو کے دفتر میں جا پہنچا اس امید سے کہ شاید یہاں کوئی کام بن جائے. کرسی پر براجمان بزرگ افسر نے نہایت احترام سے پیش آتے ہوئے میرا مدعا سنا اور باہر بیٹھے اپنے پیون کو بلا کر ہدایت کی کہ انہیں اے ڈی سی ون کے پاس لے جاؤ اور میرا بتاؤ میں نے شکریہ اداکرتے ہوئے پیون کے ہیچھے چلنا شروع کردیا. اے ڈی سی ون کے دفتر پہنچے تو معلوم ہوا کہ موصوف سیٹ پر موجود نہیں کچھ دیر قبل ہی نکلے ہیں یہ سنتے ہی میں پھر سے اے ڈی سی ٹو کے پاس پہنچ گیا اور بتایا کہ مذکورہ افسر سیٹ پر ہی موجود نہیں جس کے بعد محترم بزرگ افسر نے میری طرف دیکھا پھر کچھ سوچنے کا انداز اپنایا اور گویا ہوئے کہ Iam Sorry میں اس سلسلے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا یہ کام اے سی ارسلان سلیم ہی کرسکتے ہیں. 19 ویں گریڈ کے افسر کے یہ الفاظ سنتے ہی جیسے میرا خون کھول اٹھا لیکن اگلے ہی سانس میں اس غصے کو حلق سے نیچے اتار بیٹھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اگر یہاں کسی سے بھی الجھا تو میرا کام بننے کے بجائے مزید بگڑ جائے گا.
دو روز بعد دوبارہ اسسٹنٹ کمشنرارسلان سلیم کے دفتر پہنچا تو معلوم ہوا وہ لاہور سے واپس آچکے ہیں مگر دورے پر نکلے ہوئے ہیں. ایک گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد میں پھر ناکام لوٹ آیا اور اگلے روز پھر اے سی کے دروازے پر دستک دے ڈالی اے سی صاحب کو پراپرٹی کا سرچ لیٹر پیش کیا جس کا بغور جائزہ لینے کے بعد مختیار کار کو بلاوا بھیجا تو جواب آیا کہ مختیار کار اپنے دفتر میں موجود نہیں اسسٹنٹ کمشنر نے مجھے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اس کا فیصلہ مختیار کار ہی کرے گا آپ انتظار کریں وہ آجاتے ہیں تو اسے دیکھ لیتے ہیں یہ سننے کے بعد میں اے سی کے کمرے سے اٹھ کر باہر آفس بوائے کے پاس آکر بیٹھ گیا آفس بوائے میری بے بسی پر اظہار افسوس کرنے لگا آدھے گھنٹے بعد اے سی کمرے سے باہر آیا تو مجھے باہر منتظر پایا دھیمے انداز میں مخاطب ہوا کہ مجھے آپ کی پریشانی کا اندازہ ہے مگر میں کچھ نہیں کرسکتا اور پھر ٹوپی مختیار کار کے سر رکھ کر چلتا بنا یوں مجھے پھر ایک بار مایوس لوٹنا پڑا، یہ سلسلہ تقریباً ایک ماہ تک چلتا رہا کہ جب بھی میں جاتا دونوں میں سے کوئی نہ کوئی ایک افسر غائب رہتا اور اس دوران نیوی میں دستخط شدہ دستاویزات جمع کرانے کی آخری تاریخ بھی گزگئی مگر میں ایک دستخط نہیں کرواسکا. دستخط شدہ کاغذات جمع نہ کرانے پر میرےکزن کا نام ویٹنگ لسٹ میں ڈال دیاگیا. ایک روز جب ڈی سی آفس پہنچا تو معلوم ہوا کہ مختیار کار کی طبیعت ناساز ہے جس کے باعث وہ دفتر نہیں آرہے یہ میرا آخری چکر تھا جس کے بعد میں نے پھپھو کو فون کرکے بتایا کہ میں نے ہر ممکن کوشش کرلی مگر افسر شاہی کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا ہوں ان کی ہر ڈیمانڈ ماننے کے بعد بھی وہ دستخط کرنے کو تیار نہیں لہذا آپ کے بیٹے کا داخلہ مجھے مشکل دکھائی دے رہا. یہ وہ مرحلہ تھا جب میں نے ایک ماہ تک مسلسل کوششیں کرنے کے بعد عملاً ہار مان لی اور اس افسر شاہی کے سامنے اپنی بے بسی تسلیم کرکے ہتھیار ڈال دیئے.
تقریباً تین ہفتے گزرے کے بعد میرے پُھوپا کے کسی جاننے والے نے انھیں ڈی سی آفس بلوایا اور دستخط کرواکر دینے کی یقین دہانی کروائی. میرے پُھوپا تو بروقت وہاں پہنچ گئے مگروہ صاحب نہیں پہنچے، میرے سادہ لوح پھوپا 6 گھنٹوں تک اس بندے کا انتظار ہی کرتے رہے وہ شخص تو نہیں آیا مگر مختیارکار آفس کے عملے نے ان پر ترس کھا کر اس شرط پردستخط کروانے کی یقین دہانی کرائی کہ جس علاقے میں پراپرٹی موجود ہے وہاں سے دو گواہان بلالیں ہم دستخط کرادیتے ہیں. پھوپا کا فون موصول ہوتے ہی میں اپنے دوستوں کو لے کر ڈی سی آفس پہنچا اور وہاں حلف نامہ جمع کرایا، دفتری عملے کے کچھ لوگوں نے مجھے دیکھ کر پہچان لیا اور بتایا کہ پرانے مختیار کار کا تبادلہ ہوگیا ہے نئے مختیار کار سے دستخط کروادیتے ہیں جس کے بعد کچھ ہی دیر میں کاغذی کارروائی مکمل ہونے کے بعد اسسٹنٹ کمشنر نہ سہی مختیار کار کےSolvency Certificate پر دستخط مبارک ہو کر آگئے اور یوں معجزانہ طور پر مہینہ بھرمحنت کرنے پر نہ ہونے والا کام چند ہی منٹوں میں ہوگیا اسسٹنٹ کمشنر سے ایک دستخط کروانا کتنا مشکل ہے اس تحریر سے آپ کو بھی بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا. اختتام پر پاکستان نیوی سے بھی ایک عاجزانہ درخواست ہے کہ اس قسم کی ڈیمانڈوں سے قبل متعلقہ اداروں کو بھی اس کی تفصیل بھجوادیا کریں تاکہ ایسے پیچیدہ کیسز کی متعلقہ حکام کو بھی معلومات ہوں اور وہ ایسےعام سائلین کو مہینہ بھر ذلیل و خوار نہ کریں۔