مختلف طرزِ حیات کے اعتبار سے ہماری دنیا چار حصوں میں منقسم ہے، جنہیں ہم عموماً پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی دنیا کے ممالک کہتے ہیں۔ اس طرزِ حیات کا زیادہ تر انحصار بنیادی ضروریات پر ہوتا ہے، جن میں غذا، رہائش، تعلیم اور لباس شامل ہیں جب کہ اب ترقی یافتہ ممالک میں ان بنیادی ضروریات میں انٹرنیٹ سہولتوں کا اضافی شمار کیا جاتا ہے۔
اس طرزِ حیات کی بنا پر کی گئی تقسیم میں پاکستان کا شمار تیسری دنیا کے ممالک میں ہوتا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں وہ تمام ترقی پذیر ممالک شامل کیے جاتے ہیں، جہاں کم سے کم فی کس آمدن 3 سو ڈالر یا اس سے زائد ہے۔ لاطینی امریکا، افریقا اور ایشیا کے بیشتر ممالک اس زمرے میں پائے جاتے ہیں۔ ان ممالک میں خواندگی کا تناسب اطمینان بخش نہیں ہوتا۔ اکثر عوام متوسط اور خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں، جس کے باعث بنیادی ضروریات تک رسائی بھی مشکل ہوتی ہے۔
عجیب بات ہے کہ پاکستان میں بنیادی ضروریات کا گھیرا روٹی (غذا)، کپڑا (لباس) اور مکان (رہائش) تک محیط ہے۔ اگرچہ تعلیم اس نعرے کا حصہ نہ بھی ہو، اس کے باوجود تعلیم بتدریج اپنا مقام بنارہی ہے اور حکومتی سطح پر کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا کے تحت کچھ نہ کچھ کام ہورہا ہے، سرکاری اسکولوں کی زبوں حالی دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، پھر ستم برائے ستم کہ اساتذہ کا غیر معیاری ہونا مستقبل کے معماروں کے لیے ایسا زہر بن چکا جس کا تریاق نہیں مل رہا۔
پاکستان میں خواندگی کی شرح 57 فیصد ہے۔ ناخواندگی کی اہم وجوہ آبادی میں اضافہ، کم تعلیمی بجٹ، عوام کی رسائی میں آنے والے تعلیمی اداروں کی کمی اور وسائل کی کمی ہے۔ تعلیمِ نسواں بھی کچھ علاقوں میں اب تک ایک مسئلہ ہے جب کہ اسلام نے تعلیم کو مرد اور عورت دونوں پر فرض کیا ہے۔ مزید کہ تعلیمی بحران کی ایک اور وجہ اردو اور انگریزی زبانوں کی دو کشتیاں ہیں جس نے نہ اِدھر کا چھوڑا ہے، نہ اُدھر کا رکھا۔
پاکستان کی آبادی کا 40 فیصد طبقہ غربت کی حد سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ اس طبقے کی آمدن نہایت قلیل ہونے سے وہ تعلیم سے زیادہ اپنی مادی ضروریات کی تکمیل کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں، ان کے نزدیک تعلیم سے زیادہ اہم ضروریات کی تکمیل ہے، لہٰذا غربت بھی شرح خواندگی میں کمی کی اہم وجہ ہے۔ ان مسائل کے حل یا ان میں بہتری کے لیے حکومت کی ذمے داری ہے کہ تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ، آمدورفت کی سہولتیں، تعلیم نسواں کا باقاعدہ اہتمام، غربت کا خاتمہ، تعلیم پر خرچ میں اضافہ، طلبہ کے لیے درست میڈیم کا چناﺅ، زیادہ سے زیادہ اساتذہ کا تقرر، والدین میں تعلیمی شعور بیدار کرنا، نصاب میں یکسانیت پیدا کرنا وغیرہ جیسے اقدامات کرے۔
تعلیم، رہائش اور لباس سے بڑھ کر سب سے بنیادی ضرورت انسانی تاریخ میں غذا ہے، جسے باالفاظِ دیگر ‘بھوک’ کہتے ہیں اور کسی نے سچ کہا ہے کہ ‘بھوک سے بڑھ کر کوئی مذہب نہیں’ اور اس کا عملی جائزہ پاکستان میں بڑھتے جرائم ہیں، جو پاکستان میں گَھٹتی ملازمت کی وجہ سے عروج کی طرف جارہے ہیں۔
غیر سرکاری جرمن تنظیم ‘ورلڈ ہنگر ہیلپ’ کی طرف سے جاری کردہ ‘ورلڈ ہنگر انڈیکس-2019’ کے مطابق پاکستان 28.5 پوائنٹس کے ساتھ غذائی قلت کے شکار ممالک میں شامل ہے، اس طرح دنیا بھر میں غذائی قلت اور بھوک کے شکار 117 ممالک کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان 94 ویں نمبر پر ہے جب کہ وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز کی جانب سے جون 2019 میں جاری کردہ نیشنل نیوٹریشن سروے 2018 کے مطابق پاکستان میں ہر 10 میں سے 4 بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔ بلوچستان کی 50 فیصد آبادی جب کہ فاٹا میں 54.6 فیصد آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔
پاکستان کی موجودہ آبادی 20 کروڑ 78 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، اس لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کی موجودہ آبادی میں مسلسل بڑھوتری کو سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کا تعلق ان مسائل سے ہے، جن کا واسطہ پاکستانی عوام کو روزمرہ زندگی میں رہتا ہے۔ آبادی میں تیزی سے اضافے کا مطلب خوراک، تعلیم، صحت، روزگار اور انفرا اسٹرکچر جیسی ضروریات میں مسلسل اضافہ ہے، جس سے وسائل اور ضروریات کے درمیان عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے۔
پاکستان کے لیے خود اپنی آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کے اثرات گندم کی قلت کے علاوہ پھلوں اور دالوں سمیت ضروری اشیائے خورونوش کی درآمد کی شکل میں پہلے ہی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔
مسائل میں اضافے کی ایک اور وجہ آبادی کا تیزی سے بڑھنا ہے۔ ماہرین اپنی رائے سے مستقبل کا خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کی آبادی میں لگ بھگ ہر آٹھ سیکنڈ بعد ایک نئے فرد کا اضافہ ہوتا ہے اور خدشہ ہے کہ اگر اس رفتار میں کمی نہ آئی تو ہماری آبادی 2070 میں 35 کروڑ سے بھی تجاوز کرسکتی ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی بے ہنگم آبادی پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے کئی سنگین مسائل پیدا کرسکتی ہے جب کہ حکومتی ایجنڈا ‘دو بچے ہی اچھے’ عوام کے سروں سے اوپر جاتا ہے۔ (ناچیز کی یہاں عوام سے مراد متوسط اور غریب طبقات ہیں) ویسے شرعی لحاظ سے اولاد کی کثرت باعثِ برکت ہوتی ہے اور اسلامی ریاست کا نظامِ معاشرت جہاں زکوٰۃ، مساوات، دردِ دل جیسے ماہتاب اصول پیش کرتا ہے وہاں یہ باتیں سمجھ بھی نہیں آتی، البتہ پاکستان اسلامی ریاست عملاً کتنی ہے یہ سوچنا ‘لمحہ فکریہ’ ہے۔ کیونکہ ریاست کا مذہب سے کسی طور بھی ٹکراؤ غیر موزوں ہے، کیونکہ ہم مذہب کو بطور آفاقی دین تسلیم کرتے ہیں، لیکن نافذالعمل کرنے سے گھبراتے ہیں۔ علاوہ ازیں لوگوں میں پولیو کے قطروں کے حوالے سے یہ رجحان بھی پیدا ہوچکا کہ اس دوا سے حکومت آنے والی نسل کو جنسی طور پر کمزور بنارہی ہے، جس کی زائد تعداد ہمیں دیہی علاقوں اور پہاڑی علاقوں میں ملتی ہے۔
اس کے علاوہ لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ اولاد کی کثرت انہیں وسائل کی کثرت کا ثمر دے گی، کیونکہ ان کے فہم و ادراک میں روزگار کا چلتا پہیہ ہوتا ہے، مگر اگر وسائل کی کمی کا عمیق جائزہ لیا جائے تو حالیہ صورت حال میں وسائل کی کمی شہری علاقوں میں ملازمت نہ ہونے سے ہے اور علاقوں میں قدرتی آفات کے باعث زراعت کی تباہ کاریاں ہونے سے ہے، جس کے باعث غربت پروان چڑھ رہی ہے۔ عالمی بینک کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ملک کی 80 فیصد غریب آبادی دیہات میں بستی ہے۔ غربت کی اس بڑھتی شرح نے پاکستان کے قریباً ہر نظام کو مفلوج کر رکھا ہے۔
کراچی 2014 اور 2015 میں پاکستان کا تیسرا امیر ضلع شمار ہوتا تھا، تاہم اس کے باوجود یہاں غربت کی شرح 8.9 فیصد ہے۔ یہاں ملک کے ڈھائی فیصد غریب عوام رہتے ہیں جب کہ لاہور چھٹا امیر شہر ہونے کے باوجود 2.2 فیصد غریب عوام کا مسکن ہے۔
غربت اور مفلسی کے خاتمے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں پالیسیاں بناتی ہیں مگر افسوس کہ یہ پالیسیاں اتنے برسوں میں بھی سمندر کے کچھ قطروں کو ہی محظوظ کرسکی ہیں۔ غلط فیصلے اور کرپشن کے ہتھکنڈوں نے عوام کو جہاں بنیادی ضروریات کے لیے ترسائے رکھا ہے، وہیں غریب کو مزید غریب کردیا ہے۔ امید ہے کہ حکومت کی پالیسیاں عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں کارگر اور کارامد ثابت ہوں گی اور ان شاء اللہ ‘ہم دیکھیں گے۔۔۔’ جب پاکستانی عوام خوش حال زندگی بسر کریں گے۔