پاکستان کی تاریخ تحریک پاکستان کے بہادر سپہاہیوں کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی، جن کی مشترکہ کوششوں سے مملکت خداداد پاکستان وجود میں آیا۔ اسی طرح قیام پاکستان کے وقت صوبہ سرحد کی تاریخ میں خان عبدالغفار خان کا نام ہمیشہ سنہریں لفظوں میں لکھا جائے گا۔
خان عبدالغفار خان 1890ء میں اتمان زئی چار سدہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم چارسدہ اور پشاور کی درس گاہوں سے حاصل کی۔ باچا خان یعنی خان عبدالغفار خان علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ تھے۔
اپرہل 1948 کا سال تھا جب عظم مسلم پشتون رہنما خان عبدالغفار خان نے برصغیر پاک و ہند کے عظیم لیڈر قائدِ اعظم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے چارسدہ میں عظیم الشان جلسہ منعقد کیا۔ خان عبدالغفار خان اگرچہ ابتدا میں قائدِ اعظم کی طرح کانگریس میں تھے، لیکن قیام پاکستان کے بعد انہوں نے ہمیشہ پاکستان کی سربلندی کے لیے کام کیا۔
خان عبدالغفار خان اور قائدِ اعظم محمد علی جناح میں محبت کا اپنا ہی رشتہ تھا۔ قائدِ اعظم کو اس وقت ٹی بی کا مرض لاحق تھا، جو اپنے آخری اسٹیج میں تھا۔ قیام پاکستان کے لیے ان تھک کوششوں میں قائدِ اعظم کی صحت بہت خراب ہوچکی تھی۔ اس کے باوجود قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں جب بابائے قوم محمد علی جناح پشاور آئے تو خان عبدالغفار خان نے ان کو خصوصی پیغام بھیجا۔ اپنے اس پیغام میں انہوں نے کہا تھا کہ چار سدہ کے در و دیوار پھول پتیوں کے ساتھ قائدِ اعظم کا استقبال کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں، آپ چارسدہ ضرور تشریف لائیں۔ ایسے حالات میں اس وقت کے وزیراعلیٰ عبدالقیوم خان کی باچا خان سے ذاتی لڑائی چل رہی تھی، جس وجہ سے قائدِ اعظم خان عبدالغفار خان کے پاس چارسدہ نہ جاسکے۔
قیام پاکستان کے وقت باچا خان کے بڑے بھائی، جو ڈاکٹر خان کے نام سے مشہور تھے، صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ تھے۔ قیام پاکستان کے چھ ماہ بعد ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت برطرف کر کے خان عبدالقیوم خان کو صوبے کے وزیرِ اعلیٰ بنا دیا گیا۔ اس کے باوجود ان کے بڑے بھائی یعنی باچا خان نے اصول مؤقف اور کہا کہ چونکہ خدائی خدمت گار کانگریس کے اتحادی ہیں اور کانگریس ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے اصول کو مان چکی ہے اس لیے خدائی خدمت گار بھی پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں۔اسی بنیاد پر باچا خان نے ہندوستان کی بجائے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔اس کے بعد خدائی خدمت گاروں نے اپنے ہیڈ کوارٹر سردریاب میں پاکستان سے وفاداری اور اس کی خدمت کا عہد کیا، جسے انہوں نے بہترین انداز سے نبھایا۔
مارچ 1948 میں باچا خان نے دستور ساز اسمبلی کے اجلاسوں میں بھرپور شرکت کی۔ ان اجلاسوں میں پاکستان سے وفاداری کا اعلان کرتے ہوئے انھوں نے اپنے اس عزم کو دہرایا کہ ان کا پروگرام تخریبی نہیں تعمیری ہے اور خدائی خدمت گار تحریک بنیادی طور پر اصلاحی اور سماجی تحریک ہے جسے انگریزوں نے سیاسی عمل اور کانگریس کے ساتھ اشتراک کی جانب دھکیل دیا تھا۔ انہوں نے بغیر کسی دباؤ کے پاکستان کی قومی اسمبلی میں پاکستان کی حفاظت اور پاکستان کا پرچم سربلند رکھنے کا حلف اٹھایا۔
باچا خان پاکستان اور افغانستان کو ایک دیکھنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب 20 جنوری 1988 کو 98 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا تو انہیں ان کی وصیت کے مطابق افغانستان کے شہر جلال آباد میں سپردِ خاک کیا گیا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کسی سرحد کے قائل نہیں تھے اور دونوں ملکوں کو ایک دیکھنا چاہتے تھے۔ ریاست پاکستان نے باچا خان کی پاکستان سے لازوال محبت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے پاکستان میں باچا خان یونیورسٹی چارسدہ اور افغانستان میں باچا خان کمپلیکس، باچا خان یونیورسٹی، کالجر اور اسپتال تعمیر کرکے باچا خان کی سوچ کو آگے بڑھایا، جس کے مطابق پاکستان اور افغانستان ایک ہی ملک کے دو نام ہیں۔
آج جب پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے بھرپور کردار ادا کررہا ہے تو ایسے وقت میں خان عبدالغفار خان کا خواب پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ وہ پاکستان اور افغانستان کو ایک جان دو قالب سمجھتے تھے۔