محمد راحیل وارثی
آج عروس البلاد کراچی اُجڑا اُجڑا سا نظر آتا ہے۔ سہولتوں کا فقدان پایا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ یہاں سے عنقا ہوتی جارہی ہے۔ ہر سُو مسائل کے انبار دِکھائی دیتے ہیں۔ بدانتظامی، بدعنوانی، غفلت، غیر ذمے داری و دیگر عوامل عوام کے مصائب میں مزید اضافے کا باعث ثابت ہورہے ہیں۔ عیدالاضحیٰ حال ہی میں گزری، اس دوران عوام نے جن مشکلات اور اذیتوں کا سامنا کیا، اُس کے اثرات اب بھی شہر میں اکثر مقامات پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ بارشیں ہوں تو شہر ڈوب جاتا ہے۔ شہری مسائل کی چکی میں عرصہئ دراز سے پستے چلے آرہے ہیں۔ ان تمام مسائل کا حل بلدیاتی نظام حکومت میں پنہاں ہے، بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی نرسری گردانا جاتا ہے، لیکن انتہائی دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ملک میں جمہوری حکومتوں کے ادوار میں ان نرسریوں کو پنپنے کے مواقع فراہم کرنے کی نظیریں مفقود ہیں، بلکہ بلدیاتی نظام کی بساط لپیٹنے کی مثالوں سے جمہوری ادوار بھرے نظر آتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے واضح احکامات کے باوجود اب تک ملک کے کسی بھی حصّے میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں ہوسکا ہے۔ کراچی اور اس کے شہری بھی بلدیاتی نظام حکومت کو ترس رہے ہیں کہ شہریوں کو نچلی سطح پر اپنے نمائندے منتخب کرنے کا موقع ملے اور ان کے مسائل کے حل کی کچھ سبیل ہوسکے۔
ان دگرگوں حالات میں جدید کراچی کے بانی جمشید نسروانجی مہتا بہت شدّت سے یاد آرہے ہیں۔ کاش اُن جیسا میئر شہرِ قائد کو میسر آسکے، جو اس کی قسمت بدل سکے۔ بدنظمی کو دیس نکالا دے۔ بہترین منتظم کی حیثیت میں شہر سے مسائل کے انبار کا خاتمہ کرے۔ بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی خاطر راست اقدامات یقینی بنائے۔ اچھے کی توقع رکھنی چاہیے کہ شاید ایسا ہوجائے۔ شہرِ قائد کے پہلے منتخب میئر جمشید نسروانجی مہتا کو اس دُنیا سے رخصت ہوئے 69 برس بیت گئے۔ 8 اگست 1952 کو کراچی میں ہی اُن کا انتقال ہوا تھا۔ یہاں اُن کے حالاتِ زندگی کا مختصر سا احاطہ کیا جارہا ہے۔7 جنوری 1886 کو کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک پارسی گھرانے میں جمشید نسروانجی مہتا کا جنم ہوا۔ اُن کے والد کا نام رُستم جی مہتا تھا۔ 1918 میں جمشید مہتا کراچی میونسپل کارپوریشن میں کونسلر منتخب ہوئے اور جلدہی اس کارپوریشن کے صدر کی حیثیت سے ان کا انتخاب عمل میں آیا۔ 12 سال تک وہ اس عہدے پر خدمات انجام دیتے رہے، پھر بالآخر کراچی کے پہلے منتخب میئر کا اعزاز انہی کو حاصل ہوا۔ شہر کی عظمت میں اضافے کے لیے انہوں نے شبانہ روز کوششیں کیں۔ وہ سندھ لیجسلیٹو اسمبلی کے رکن بھی رہے۔
انسانیت کی خدمت کا جذبہ اُن میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ وہ ساری زندگی لاچاروں، بے کسوں، غریبوں کی خدمت میں مصروفِ عمل رہے۔ کراچی کی تعمیر و ترقی میں ان کا کلیدی کردار رہا۔ جمشید نسروانجی مہتا کی خدمات کے سبب ان کا نام شہرِ قائد کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ انسانیت کی خدمت ان کا مطمع نظر تھا اور تادمِ آخر اس مشن میں مصروف عمل رہے۔ وہ کراچی کے پہلے منتخب ناظم تھے، انہی کے دور میں شہر کے مثالی انتظامات اور نظم و ضبط تاریخ کا حصّہ ہیں۔ تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ جمشید نسروانجی 1922 میں پہلی بار بلدیہ کراچی کے صدر منتخب ہوئے، اس وقت اس کا شمار پس ماندہ شہروں میں ہوتا تھا۔ سہولتیں عنقا تھیں۔ پورے کراچی میں محض 2 عوامی پارک تھے۔ فٹ پاتھ تھی نہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا بندوبست، میٹرنٹی ہوم تھا نہ کوئی لائبریری، کوئی بہتر سڑک بھی پورے شہر میں نہ تھی۔بلدیہ کراچی کا صدر بنتے ہی جمشید نسروانجی مہتا نے شہر کی ترقی اور شہریوں کی خدمت کا بیڑا اُٹھایا اور عملی بنیادوں پر اقدامات کا آغاز کیا۔ بہترین اور معیاری سڑکیں بنوائیں، لائبریریاں قائم کیں، درجن کے قریب عوامی پارک بنوائے، فٹ پاتھ قائم کیں، پینے کے صاف پانی کی فراہمی کی خاطر واٹر سپلائی کے منصوبے کا قیام عمل میں لائے۔ بچوں کے لیے علیحدہ سے پارک اور بڑوں کے واسطے ورزش کے لیے بھی ایک پارک تعمیر کیا۔ شہر قائد کے قدیم علاقے لیاری میں 10 اسکول قائم کیے اور مفت تعلیم کی فراہمی کا آغاز کیا۔ انہوں نے شہر کے تمام علاقوں میں میٹرنٹی ہوم قائم کیے۔ ماما پارسی اسکول، این جے وی، میٹروپول ہوٹل، سوبھراج ہسپتال، میونسپل میوزیم، میونسپل کارپوریشن بلڈنگ، کم آمدن والے ملازمین کے لیے مکانات تعمیر کیے، جن کو بعد میں ان کی یادگار کے طور پر جمشید کوارٹرز کا نام دیا گیا۔ صفائی ستھرائی کا بہترین نظام قائم کیا۔ اُن کی دن رات محنتوں کے طفیل اُس دور میں کراچی کو ناصرف ہندوستان بلکہ مشرق کا سب سے خوب صورت شہر قرار دیا گیا تھا۔
جمشید نسروانجی مہتا شب و روز محنت کے عادی تھے، اُنہیں بہت کم آرام کا موقع میسر آتا۔ انہیں علم و ادب سے خاص شغف تھا، مطالعے کے شوقین تھے، اخبارات اور رسائل کے لیے لکھتے بھی تھے اور کراچی کے شہری نظام کے متعلق ”کراچی میونسپلٹی“ کے نام سے ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی۔ سندھ میں انہیں بابائے اسکاؤٹنگ بھی گردانا جاتا ہے جب کہ وہ پہلے غیر منقسم ہندوستان بعدازاں پاکستان میں ”بوائے اسکاؤٹ موومنٹ“ کے بانیان میں سے ایک ہیں۔ اُنہوں نے زندگی بھر شادی نہ کی۔ اس عظیم شخصیت کے کراچی کے لیے احسانات ناقابل فراموش ہیں۔ پاکستان پوسٹ آفس نے ان کی 102 ویں سالگرہ کے موقع پر 7 جنوری 1988 کو ان کے اعزاز میں یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیے۔ کراچی کی بستی جمشید کوارٹر، ایک سڑک جمشید روڈ اور ایم اے جناح روڈ پر واقع جمشید میموریل ہال انہی سے منسوب ہیں۔