محمد راحیل وارثی
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی برسی آج عقیدت و احترام سے منائی جارہی ہے۔ 21 اپریل 1938 کو لاہور میں 60 برس کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا تھا۔آپ 1877 کو سیالکوٹ پنجاب، برطانوی ہند میں ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آج آپ کی برسی کے حوالے سے تقریبات ہورہی ہیں، ٹی وی چینلوں پر پروگرام نشر کیے جارہے اور اخبارات میں خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا گیا ہے۔
علامہ محمد اقبالؒ نے ادبی دُنیا کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں، اردو کے ساتھ انگریزی اور فارسی ادب میں بھی آپ نے اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ انگریزی میں ایک نثری کتاب اور چند مشہور کتب بھی تحریر کیں، جن کے نام یہ ہیں۔ ’’بانگِ درا (اُردو)‘‘، ’’بالِ جبریل (اُردو)‘‘، ’’ضربِ کلیم (اُردو)‘‘، ’’ارمغانِ حجاز (اُردو)‘‘، ’’تجوید فکربت اسلام (اُردو)‘‘، ’’اسرار ورموز (فارسی)‘‘، ’’پیام مشرق (فارسی)‘‘، ’’زبورِ عجم (فارسی)‘‘، ’’جاوید نامہ (فارسی)‘‘، ’’پس چاہ بیار کرد (فارسی)‘‘، ’’دیوان محمد اقبال (عربی والیوم 1تا 10)‘‘۔
گو مصور پاکستان کو اس دُنیا سے رخصت ہوئے 83 برس ہوچکے ، لیکن آج بھی اُن کا کلام بہ حیثیت قوم ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ اُن کی آفاقی فکر اور نظریات ہر موڑ پر ہماری بھرپور رہنمائی کرتے ہیں۔ اقبالؒ نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے میں جو کلیدی کردار ادا کیا ہے، اُسے کبھی فراموش نہیں جاسکتا۔ انہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا، جس کو شرمندۂ تعبیر قائداعظمؒ نے کیا۔ اقبالؒ کے فلسفے اور نظریات کا ہی ثمر تھا کہ ہمیں ایک آزاد وطن نصیب ہوا۔ اُنہوں نے اُمت مسلمہ کے لیے بے تحاشا خدمات انجام دیں۔ بلاشبہ اُن کی شاعری لازوال ہے۔ وہ بہ حیثیت شاعر عالمی شہرت رکھتے ہیں، آج بھی دُنیا بھر میں اُن کے چاہنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو عقیدتوں اور محبتوں کے پھول اُن پر نچھاور کرتے ہیں۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری قوم کا وتیرہ بن گیا ہے کہ کسی بھی خاص دن پر وہ اُس حوالے سے بڑے جوش و خروش کا مظاہرہ کرتی ہے، پھر پورے سال اُس ضمن میں خاموشی رہتی ہے۔ اسی طرح شاعر مشرق کی خدمات کے اعتراف میں سال میں محض دو دن منانا اور پھر اُنہیں فراموش کردینے کی روش اختیار کرنا مناسب طرز عمل نہیں۔ اقبالؒ دراصل ایسے لافانی فلسفے، فکر اور نظریات کا نام ہے، جس نے سوچ کے کئی دروا کیے۔ ہمیں اس عظیم شاعر کے افکار کا پرچار محض برسی اور سالگرہ کے مواقع پر ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہر لمحہ اُنہیں اپنے پیش نظر رکھنا اور اُن کو پروان چڑھانا چاہیے۔
دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ اقبالؒ کی آفاقی فکر کا عملی اطلاق ہم اپنے سماج پر اتنے سال بیت جانے کے باوجود صحیح معنوں میں نہیں کرسکے۔ یہی سبب ہے کہ وطن عزیز میں ہر سُو خرابے ہی خرابے نظر آتے ہیں اور آج ہم بہ حیثیت قوم و ملک پستیوں کی جانب گامزن ہیں۔ کون سی بُرائیاں ہیں جو ہمارے معاشرے میں عیاں نہیں اور ان میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
ایسے دگرگوں حالات میں ضروری ہے کہ اقبال کے فلسفے، افکار اور نظریات کا ہر سطح پر خوب پرچار کیا جائے۔ اُن سے معاشرے کے ہر فرد کو صحیح طور پر روشناس کرایا جائے۔ اُن کے تصورات کو معاشرے کا ہر فرد ناصرف سمجھتا ہو بلکہ اُن پر عمل پیرا بھی ہو۔ حکمراں بھی محض اُن سے جذباتی وابستگی کا اظہار نہ کریں بلکہ اُن کے لافانی نظریات پر عمل کرکے دِکھائیں۔ بلاشبہ ملک و قوم اقبال کے نظریات اور افکار پر عمل پیرا ہوکر ہی ترقی کی معراج کو پہنچ سکتے ہیں۔ غرض اُن کی آفاقی فکر کی پیروی میں ہی ہماری فلاح و بہبود پوشیدہ ہے۔