کراچی: پاکستان کی آبادی کے ایک بڑے حصے کا مرگی کی بیماری میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ طبی ماہرین نے کہا کہ پاکستان کی آبادی کا 2 فیصد حصہ مرگی کے مرض میں مبتلا ہے جب کہ ماں سے بچے میں اس مرض کی منتقلی کے خدشات 5 فیصد ہیں۔ پاکستان میں مرگی کے مرض کی ادویہ کا فقدان پیدا ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں زندگیاں خطرے میں ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز مرگی کے عالمی دن کی مناسبت سے نورولوجیکل اویئرینس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن (نارف) کی پریس کانفرنس میں کیا۔
پریس کانفرنس میں صدر نارف پروفیسر محمد واسع،صدر پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کراچی پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ متقی اور پروفیسر فوزیہ صدیقی موجود تھے۔
اس موقع پر صدر نارف پروفیسر محمد واسع نے کہا کہ ہمارا ہدف مرگی کے حوالے سے غلط نظریات کو ختم کرکے آگاہی دینا ہے۔اسکول جانے والی عمر کے بچوں میں بھی مرگی ہوتا ہےلیکن اساتذہ کا تعاون ضروری ہے،کیوں کہ اکثر اساتذہ متاثرہ بچے کو صحت کے مرکز میں داخل کروانے نہیں دیتے۔
انہوں نے کہا کہ ادویات سے اس مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے،ادویات لینے والے مریض بھی اعلی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ادویات لیتے ہوئے 95 فیصد افراد نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔بچوں میں مرض زندگی بھر کے لیے نہیں ہوتا۔اکثر بچے اس مرض سے صحت بات ہوجاتے ہیں،معاشرے کے تعاون سے ان میں بہتری ممکن ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مرگی کے دورے کچھ منٹ کے ہوتے ہیں،لیکن اگر دورے پانچ سے زائد منٹ تک ہوتے رہیں تو پریشانی کی بات ہے۔طویل دورانیے کے بعد چند منٹوں کےلیے دورہ پڑ سکتا ہے۔ہم گھروالوں کو کہتے ہیں کہ دورے کے دوران متاثرہ فرد کے منہ میں کچھ نہ ڈالیں۔
صدر نارف نے کہا کہ مرگی کی ادویات جان بچانے والی ادویات میں شمار ہوتی ہیں۔پاکستان میں مرگی کے مرض کی ادویات کا فقدان پیدا ہوگیا ہے۔حکومت کی ذمہ داری ہے کہ غریب مرگی کے مریضوں کو مفت ادویات کی فراہمی کرے،کیوں کہ ادویات کی فراہمی ان کا بنیادی حق ہے۔ادویات کے فقدان کے سبب لاکھوں زندگیاں خطرے میں ہیں۔اس کا علاج سرجری اور مختلف ڈیوائسز سے بھی ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر کےلیےہفتے کےروز تریبتی سیشن منعقد کررہے ہیں،جن میں ملک بھر سے مختلف ڈاکٹر شرکت کریں گے۔آگہی اسپتال 13 کو لانڈھی سیسی اسپتال میں منعقد ہوگی۔50 اسکولوں میں آرٹ کمپیٹیشن لروایا ہے۔13 فروری کو پروگرام میں بچوں کو انعامات دیں گے۔
صدر پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ متقی نے کہا کہ یہ ایک اہم دماغی بیماری ہے۔پاکستان میں بڑی تعداد میں مرگی کے مریض پائے جاتے ہیں۔فروری میں مرگی کےلیے آگاہی سیشنز منعقد کیے جاتے ہیں۔
چیئرپرسن ایپی لپسی فاؤنڈیشن پاکستان ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ پاکستان کی آبادی میں 2 فیصد افراد مرگی سے متاثر ہیں، لیکن لوگوں کو اس بیماری کا نام سنتے ہی حیرت ہوتی ہے۔عورت کو اگر مرگی ہوجائے تو اس کو علیحدہ کردیا جاتا ہے۔اس مرض کی مکمل تشخیص ضروری ہے،یہ بیماری چھونے سے نہیں پھیلتی،اس بیماری کو افواہوں میں اڑانا درست نہیں،نہ ہی یہ جن بھوت کااثرہے۔یہ ایک بیماری ہے جو علاج سے ختم ہوجاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ لڑکیوں کی شادی بھی ہوتی ہے،لیکن برتھ کنٹرول ادویات لینے کے لیے طبی ماہر سے مشورہ ضروری ہے۔95 فیصد ماں سے بچے میں یہ مرض نہیں جاتا ہےلیکن اگر یہ سوال ہے کہ ماں کی دواؤں کا اثر بچے پر ہوسکتا ہے کیا؟تو اس کے لیے طبی مشاورت لازم ہے۔پاکستان میں250 نیورولوجسٹ ہیں لیکن اکثر مریضوں کو جنرل فزیشن بھی طبی مشاورت دے سکتا ہیں۔جینیٹک ایپی لیپسی پانچ سے دس فیصد ہوتی ہے،بار بار تیز بخار ہونے سر کہ چوٹ سے بھی مرگی ہو سکتی ہے۔