کورونا وائرس اور حکومتِ وقت

نازیہ علی

میں ریسرچر اور پولیٹیکل سائنس کی طالب علم ہوں ۔
حکومتِ وقت سے عرض ہے کہ بڑھتے ہوئے کروناوائرس کے کیسز اللہ نہ کرے بہت بڑی تعداد میں ہوجاتے ہیں تو کیا ہوگا؟ کیونکہ ہمارے پاس تو عام او پی ڈیز ہی روزانہ کی بنیاد پر مکمل نہیں ہوتی اور ایسا بھی نہیں کہ کرونا کی آمد کے سبب دوسرے امراض جنم نہیں لیں گے۔


اس لیے آپ فوری طور پر جتنے میڈیکل یونیورسٹیز میں طالب علم پڑھ رہے ہیں انہیں فوری طور پر اس بیماری کے علاج کی ٹریننگ دیں۔ ایک کمیٹی تشکیل دیں جو تمام میڈیکل طلبا و طالابات کا ڈیٹا اکھٹا کرے اور انہیں آن لائین تربیت دی جائے، جیسے کہ آئی سی یو کو کس طرح بہتر مینج کیا جاےاور مریضوں کی کس طرح بہتر دیکھ بھال وغیرہ کی جائے۔ وینٹی لیٹر پر مریض کس طرح لے جاتے ہیں یہ ہر ڈاکٹر نہیں جانتا، اس کو بھی باقاعدہ سکھایا جائے اور اسٹینڈ بائی پر رکھا جائے تانکہ ایمرجنسی کی صورت میں بہتر طریقے سے نمٹا جا سکے۔

مزید یہ کہ سول سوسائٹی جن کی تعداد بارہ ہزار سے زیادہ ہیں، ان میں سے پڑھے لھکے لوگوں کی فہرست بنائی جائے تانکہ وہ ایمرجنسی کی صورت میں آئیسولیشن وارڈ کی مینجمینٹ کو مینیج کرنے میں کارآمد ثابت ہوں۔ پاکستان جیسے ملک میں اس طرح نہ کیا گیا جہاں ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل عملہ بہت محدود تعداد میں ہیں تو وہاں نقصان کا اندیشہ بڑھ سکتا ہے۔

پاکستان میں چالیس پرسن طبقہ روزانہ کی بنیاد پر کماتا اور کھاتا ہے۔ لاک ڈاون کرنا وقت کی انتہائ ضرورت تو ہے لیکن ان لوگوں کو کس طرح مینج کیا جاے گا جو روز انہ کماتے ہیں؟
راشن کس طرح تقسیم کیا جائے کہ واقعی مستحق لوگوں کو پہنچے ورنہ لوگوں کو زیادہ دن تک گھر میں محدود کرنا مشکل ہو جائے گا۔
انقلاب فرانس میں روٹی کے لیے کتنے افراد لقمہِ اجل بن گئے اور نا جانے کتنی ہی تباہی ہوئی۔ چین میں بھی کھانے کا انقلاب جو ماوُزے تنگ کی وجہ سے آیا سارے ملک کے کیڑے مروادیے، لوگ اناج کے لیے ایک دوسرے کو نوچ رہے تھے، ایک اندازے کے مطابق دوکروڑ افراد جان سے گئے۔ ہمارے ہاں بھی بہت غلط ہوسکتا ہےاگر ان چالیس فیصد طبقے کو مد نظر نہیں رکھا گیا تو۔ حکومت روزانہ کی بات کررہی ہے، ویسے ان سیاست دانوں نے تاریخ سے کھچہ سیکھا ہی نہیں جو عمل کریں۔


راشن کی منصفانہ تقسیم کے لیے کچھ تجاویز ہیں:
کراچی میں نوے پولیس اسٹیشن ہیں، پولیس اپنے ایریا کی بہت اچھی طرح معلومات رکھتی ہے، ہمارے پاس فوج ،پولیس،سول سوسائیٹی کی صورت میں ورک فورس موجود ہیں۔
پولیس اسٹیشن بہت اچھی طرح سے علاقے کے لوگوں سے واقف ہوتے ہیں۔ان سے یہ کام لیا جائے اور وہاں ایک ٹیچر کی ذمہ داری ہوکہ ساری معلومات مینیول میں لکھے اور ایک آئ ٹی ٹیچر کو بلا کر لیپ ٹاپ پر لسٹ تیار کی جائے۔ کمپیوٹر پر ان چالیس فیصد حضرات کی جو غریب اور ضوررت مند ہیں کی لسٹ بنائی جائے۔
جب پولیس کی باقائدہ انکوائری ہوگی اور ایک معزز ٹیچر اور آئی ٹی ایکسپرٹ اس کی لسٹ بنا کر حکومت کو دینگے تو امید کی جاسکتی ہے کہ راشن بہتر طریقے سے تقسیم ہوگا، اس سے کافی حد تک آنے والے وقت میں طو یل لاک ڈاون کرنے پر بھی معاملات بہتر ہی رہیں گے۔

سب سے اہم اعلان یہ کیا جائے کہ دو ماہ کا کرایہ کسی کرایہ دار سے نہ مانگا جائے ۔اس سے بہت سے لوگوں ۔کو گھر تک محدود رہنے کا جواز مل جائے گا، بڑی تعداد میں لوگ اپنے گھروں کے کرایے کے لیے بھی پریشان ہیں!