محمد عماد
عزت نفس کسی شخص کی محفوظ نہیں
اب تو اپنے ہی نگہبان سے ڈر لگتا ہے
ڈنکے کی چوٹ پر ظالم کو برا کہتا ہوں
مجھے سولی نہ ہی زندان سے ڈر لگتا ہے
یکم مئی دنیا بھر میں مزدوروں کے علمی دن کے طور ہر منایا جاتا ہے۔اس کی ابتداء امریکہ کے شہر شکاگو سے ہوئی۔اس دن کو منانے کا مقصد ان مزدوروں،محنت کشوں کو یاد رکھنا ہے جنہیں سرمایہ داروں کے خلاف آواز اٹھانے پر خون میں نہلا دیا گیا۔ مگر افسوس یہ دن بھی دوسرے دنوں کی طرح ایک تہوار بن کر رہ گیا ہے۔ اس کا مقصد صرف ٹیلیویژن پر آکر تقریریں کرنا رہ گیا ہے۔آج دنیا بھر میں مزدوروں کے نام پر سیاست کا کھیل کھیلا جارہا ہے ان کو روٹی کپڑا مکان کا جھنسا دیکر ایوانوں میں بیٹھے حکمران اپنی ہی لگائی ہوئی فیکٹریوں میں ان پر ظلم کے پہاڑ توڑتے ہیں۔
یوم مئی کا آغاز محبت کشوں کی طرف سے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کے مطالبے سے ہوا کیونکہ ایک مزدور کے لئے پندرہ سے سولہ گھنٹے کام کرنا کسی آزمائش سے کم نہیں ہے۔بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں آج بھی مزدور دس سے بارہ گھنٹے مزدوری کرتا ہے۔
مزدوروں پر ظلم کی ایک انتہا یہ ہے کہ ان کو حکومت کی طرف سے عائد کردہ تنخواہوں سے کم تنخواہ پر رکھا جاتا ہے۔ جبکہ حکومت کی طرف سے عائد کردہ تنخواہ میں بھی ایک گھر کا گزارہ آج کے دور میں ممکن نہیں ہے۔جس کا نتیجہ مزدور کے معصوم بچوں کو بھی غلامی کی زد میں لیئے جا رہا ہے۔انہیں اینٹوں کے بھٹوں،چائے کے ہوٹلوں اور دکانوں پر شیشے صاف کرنے کے لیے لگا دیا جاتا ہے۔
1886 اور آج کے مزدور میں کوئی واضح فرق نہیں رہا کیونکہ سرمایہ دار آج بھی مزدوروں کو اپنا غلام سمجھتے اور کم معاوضے میں زیادہ وقت کام کرواتے ہیں۔اور مزدور اس دن میں بھی اپنے بچوں اور گھر والوں کے لیے مزدوری کرنے پر مجبور ہے۔
سرخ چمنی نے یہ راز بتلایا
خون جلتا ہے کار خانوں میں